تنظیموں کا باہمی اخلاقی برتاو شہید حسینی کی نگاہ میں از شھید حسینی رح

مناسب تنظیمی برتاو

جہاں تک دوسری تنظیموں اور طلاب کے ساتھ برتاو کا سوال ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جب ہم کوئی تنظیم بناتے ہیں تو اس طرح میدان میں آنا چاہئے کہ جو تنظیمیں موجود ہیں وہ ہمیں اپنا ممد و معاون سمجھ لیں نہ کہ اپنا دشمن۔ اگر ایک تنظیم نے ہمیں اپنا ممد و معاون سمجھ لیا تو طبعی طور وہ ہماری مخالفت نہیں کرے گی اور اگر باہدف افرادہیں تو وہ ساتھ بھی دیں گے۔

لیکن اگر ہم یوں میدان میں  آئے کہ دوسری تنظیم والوں کو یہ احساس ہو کہ یہ تو ہمیں ختم کرنے کے لئے  آئے ہیں، یہ ہمارے دشمن ہیں، تو  طبعی بات ہے کہ وہ مخالفت کریں گے جس کے نتیجے میں تصادم ہوگا اور تصادم کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اپنے مقصد سے پیچھے رہ جائیں اور آپ بھی اپنے مقصد سے پیچھے رہ جائیں۔ اس لئے میں آپ برادران عزیز اور علماء کرام سے یہ خواہش کروں گا کہ جتنی بھی تنظیمیں ہیں آپ ان سے ایسے روابط رکھیں کہ وہ کم از کم آپ کو دشمن نہ سمجھیں۔

تنگ نظری نقصان دہ ہے

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کشادہ دلی سے کام لیں، جس طرح آپ توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے آپ کو برداشت کریں تو آپ بھی دوسروں کو برداشت کریں۔ دیکھیں خداوند متعال نے کفار کو برداشت کیا ہے حالانکہ وہ اس کی ذات کے منکر ہیں اور اس کے دین کے مخالف ہیں، خدا کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں کہ انہیں ختم کر دے۔ رسول اکرمﷺ نے مصلحت اسلام کی خاطر منافقین کو بھی ساتھ رکھ لیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ توقع رکھیں کہ دوسری تنظیمیں ہمیں تسلیم کریں تو ہمیں بھی انہیں تسلیم کرنا چاہئے اور انہیں برداشت کرنا چاہئے۔تنگ نظری کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ہم میں کشادہ دلی ہونی چاہئے۔

تصادم کا طریقہ اختیار نہ کریں

اگر ایک تنظیم کے ساتھ آپ کو کوئی اختلاف ہے تو ایک اختلاف سلیقہ ای ہوتا ہے اور  ایک نظریاتی اختلاف ہوتا ہے، فرض کریں کہ آپ کسی تنظیم کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں تو نظریات کو ہمیشہ نظریات کے ذریعے یا تو اثبات کیا جاتا ہے یا نفی کی جاتی ہے اور زور و تشدد کے ذریعے کوئی تنظیم دبی نہیں ہے۔ اس لئے میں آپ کو کبھی بھی یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ اگر آپ کسی تنظیم کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں تو اس بناء پر آپ اس کے ساتھ تصادم کا طریقہ اختیار کریں، آپ کو تشدد زیب نہیں دیتا۔

ٹھیک ہے آپ کا تنظیم کے حوالے سے ان سے نظریاتی اختلاف ہے، اس کے علاوہ آپ جب آپس میں بیٹھیں تو محبت، احترام اور عزت کے ساتھ پیش آئیں۔ اگر کوئی بات چھیڑ دی جائے تو اس کو بھی اخوت اور اسلامی حدود کے اندر کھلے دل کے ساتھ سن لیں اور پھر دلیل کے ساتھ آپ انہیں اپنی بات پیش کریں لیکن خدا نخواستہ تصادم ہوجائے یا بدمزگی پیدا ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسلام کے لئے بھی صحیح نہیں ہے۔

 

کتاب: آداب کارواں،صفحہ ۱۸۹ الی ۱۹۰ ناشر؛ العارف اکیڈمی پاکستان سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے