دین کا اجتماعی کردار اور مغرب کے باطل خیالات از شہید مرتضیٰ مطہریؒ

انبیاء ع کا اہم ترین کردار

ہر طرح کے ظلم و ستم و استبداد اور سرکش عناصر سے مقابلہ انبیاء ع کا اہم ترین کردار رہا ہے۔ قرآن ان کے کلیدی کردار کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ قرآن کریم اولاً تو عدل و انصاف کے قیام کو بعثت و رسالت کے ہدف کے عنوان سے ذکر کرتا ہے اور ثانیاً اپنے واقعات میں ظالموں جابروں اور استبدادی طاقتوں کے خلاف انبیاءع کی جدوجہد کو بارہا بیان کرتا ہے۔

قرآن نے چند آیتوں میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ جوطبقہ ہمیشہ سے انبیاءع کے ساتھ مصروف پیکار رہا ہے وہ استبدادی اور ظالم طاقتوں کا طبقہ ہے۔

مارکس ازم کا باطل تصور دین


کارل مارکس اور اس کے پیروکاروں کا یہ نظریہ کہ دین حکومت اور دولت و ثروت حاکم طبقے کے تین مختلف چہرے ہیں جو مظلوم و مجبور طبقے کے مخالف رہے ہیں ایک بے قیمت نظریہ ہے اور تاریخ کے مسلمہ حقائق کے خلاف ہے۔

ڈاکٹر ارانی نظریہ مارکس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مذہب ہمیشہ حاکم اور برسراقتدار طبقے کا آلہ کار رہا ہے اور ضعیف و کمزور طبقے کو مغلوب کرنے کے لئے تسبیح و صلیب نے ہمیشہ استبدادی قوتوں کے ساتھ ہی حرکت کی ہے “۔ یہ قول ڈاکٹر ارانی کتاب ”اصول علم روح“ سے نقل کیا گیا ہے۔

تاریخ کی اس قسم کی توجیہات اور اس قسم کے فلسفہ تاریخ کو قبول کرنا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ آدمی حقائق سے چشم پوشی کر لے اور تاریخی واقعات کو نظرانداز کر دے۔

 

علیؑ تیغ و تسبیح دونوں کے مرد میدان

تاریخ کی اس قسم کی توجیہات اور اس قسم کے فلسفہ تاریخ کو قبول کرنا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ آدمی حقائق سے چشم پوشی کر لے اور تاریخی واقعات کو نظرانداز کر دے۔
علی علیہ السلام تیغ و تسبیح دونوں کے مرد میدان تھے تلوار کے بھی دھنی تھے اور تسبیح کے بھی۔ علیؑ کا شعار کیا تھا:کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا
ہمیشہ ظالم کے دشمن اور ستم رسیدہ کے یار و مددگار رہو۔ نہج البلاغہ حصہ مکتوبات نمبر ۴۷ ] ۔

علیؑ کو پوری زندگی تیغ و تسبیح عزیز رہی اور وہ زور و زر کے دشمن رہے علیؑ کی تلوار ہمیشہ صاحبان اقتدار اور مالکان سیم و زر کے خلاف برسرپیکار رہی۔ کتاب مھزلة العقل البشری میں ”ڈاکٹر علی الوردی“ کے بقول علیؑ نے اپنی شخصیت سے مارکس کے فلسفے کو باطل کر دیا ہے۔

طاقت پرستی کا خیالِ باطل


مارکس کے نظریے سے زیادہ عبث اور لایعنی نظریہ ”نطشے“ کا ہے جو مارکس کے نظریے کے بالکل برعکس ہے یعنی چونکہ معاشرے کو کمال عطا کرنے والا اور پیش قدم طبقہ صرف طاقت وروں کا ہے اور دین کمزوروں کی حمایت کے لئے اٹھا ہے لہٰذا جمود و انحطاط کا عامل رہا ہے۔ گویا انسانی معاشرہ اس وقت ارتقاء و کمال کے راستے پر بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا جب اس پر لاقانونیت اور جنگل کے قانون کی حکومت ہو گی۔ 


مارکس کی نظر میں کمال کا سبب محروموں کا طبقہ ہے اور نبی اس طبقے کے مخالف رہے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ دین طاقت وروں اور دولت مندوں کی اختراع ہے جب کہ ”نطشے“ کہتا ہے کہ دین کمزوروں اور محروموں کی اختراع ہے۔ کارل

مارکس ازم کا فکری جھول


مارکس کا ایک اشتباہ یہ ہے کہ اس نے صرف طبقاتی مفادات کے تضاد کی بنیاد پر تاریخ کی توجیہ کی ہے اور تاریخ کے انسانی پہلو کو نظرانداز کر دیا ہے۔

دوسرا اشتباہ یہ ہے کہ اس ارتقاء و کمال کا عامل صرف محروم اور کمزور طبقے کو سمجھا ہے۔
تیسری غلطی یہ ہے کہ انبیاءعلیھم السلام کو حاکم طبقے کا بازو اور طرف دار قرار دیا ہے یعنی اس نے دانا تر انسان کو سب سے طاقت ور انسان کے برابر سمجھا ہے اور سب سے طاقت ور انسان ہی کو انسانی معاشرے کو آگے بڑھانے والا عامل مانا ہے۔

 

 

کتاب: وحی اور نبوت، تالیف شہید مرتضی مطہری سےاقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے