قرآن اور خواتین کی اقتصادی آزادی از شہید مرتضیٰ مطہریؒ


 

 

خواتین کی اقتصادی آزادی کا قرآنی دستور

اسلام نے چودہ سو برس پہلے ایک قانون دیا کہ  للرجال نصیب مما اکتسبوا و للنسآء نصیب مما اکتسبن(نساء 32)۔ مرد جو کچھ کماتے ہیں وہ ان کا حصہ ہر اور عورتیں جو کماتی ہیں  وہ ان کا حصہ ہے۔اس آیہ کریمہ میں قرآن مجید نے مردوں کو ان کے نتائج کار اور کوشش کا مالک اور خواتین کو ان کے نتائج کار و کوشش کا حقدار قرار دیا ہے۔

 

اسلام میں خواتین کی معاشی آزادی کا سبب

اسلام نے یورپ سے تیرہ سوبرس پہلے عورتوں کو اقتصادی آزادی عطا کی، فرق یہ تھا کہ اسلام کا خواتین کو اقتصادی آزادی عطا کرنے کا سبب، اسلام کی انسانی جہت، عدل و دوستی اوی الٰہیت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

نہ انگلستانی کارخانہ داروں کی ہوس نفع اندوزی تھی، جس نے اپنے پیٹ بھرنے کے لیے یہ مسودہ قانون پیش کیا ہو، اس کے بعد وہ ڈھول پیٹتے کہ ہم نے عورت کے حقوق کو قانونی طور پر منوایا، ہم نے زن و مرد کے حقوق کو برابر تسلیم کر لیا۔

 


ایک عظیم سماجی انقلاب

اسلام نے عورت کو اقتصادی آزادی بخشی لیکن بقول ویل ڈیورینٹ : خانہ بر اندازی نہیں کی؛ ۔ گھر میں آگ نہیں لگائی۔ خاندانوں کی نیو نہیں اکھیڑی، بیویوں کو شوہروں اور بیٹیوں کو باپوں کے خلاف سر کشی پر نہیں ابھارا، اسلام نے اس آیت سے ایک عظیم سماجی انقلاب برپا کیا مگر پرسکون، بے ضرر اور بے خطر۔


 

 

کتاب: اسلام میں خواتین کے حقوق، ص 255 الی 256، تالیف شہید مطہری سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے