امامت و رہبری کا اسلامی تصور از رہبر انقلاب

امامت ایک مثالی نظام کی مکمل تشکیل کا نام ہے

امامت اپنے حقیقی معنی میں، انواع و اقسام کے نظاموں کے مقابلے میں جو در حقیقت انسانی کمزوریوں، خواہشات، غرور و تکبر اور حرص و طمع کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں، معاشرے کے نظم و نسق کے لئے ایک مثالی نظام کی مکمل تشکیل کا نام ہے۔ اسلام بشریت کے سامنے امامت کا نسخہ اور نظریہ پیش کرتا ہے، یعنی ایک ایسا انسان جس کا دل ہدایت الٰہی سے سرشار اور فیضیاب ہو جو دینی امور کو سمجھتا اور پہچانتا ہو (یعنی صحیح راستے کے انتخاب کی صلاحیت رکھتا ہو) اور اس پر عمل درآمد کی طاقت بھی رکھتا ہو۔

اسلامی تعلیمات میں اکثر مواراد میں لفظ امامت (جس کے معنی مطلق راہنمائی کے ہیں) کا اطلاق خاص مصداق پر ہوتا ہے اور وہ اجتماعی میدان میں فکری اور سیاسی رہبری و راہنمائی ہے۔

قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یہ لفظ اپنے مشتقات کے ساتھ استعمال ہوا ہے (جیسے امام اور ائمہ وغیرہ) تو ان موارد میں اسی مخصوص معنی یعنی ’’ امت کی رہبر و رہنمائی‘‘ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ یعنی سیاسی رہبری یا دینی اور فکری پیشوائی یا دونوں طرح کی راہنمائی۔

حضور اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد لوگوں کے درمیان فکری اور سیاسی لحاظ سے اختلاف رائے کی جس کے نتیجے میں اسلام کے پیروکاروں کے درمیان گروہ بندی اور فرقہ پرستی نے جنم لیا، اس کا اصل نقطہ اختلاف بھی امت کی سیاسی رہبری اور قیادت کا مسئلہ تھا اور لفظ امامت و امام کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی اور یہ لفظ اپنے دیگر تمام معانی سے زیادہ ’’ سیاسی رہبری اور قیادت‘‘ کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

مسئلہ امامت میں عام طور پر امام کی شرائط اور خصوصیات (یعنی معاشرے پر حاکم اور اس کی باگ ڈور سنبھالنے والے) کے بارے میں بحث کی جاتی تھی اور ہر کوئی اس مسئلے پر ایک خاص عقیدہ اور نظریہ رکھتا ہے۔ مکتب تشیع میں بھی (جس کے پیروکاروں کے درمیان امامت کا منصب اسلام کے دوسرے تمام احکام و مسائل پر محیط ہے) امامت سے اسی معنی کو مراد لیا جاتا ہے۔

امامت کے بارے میں مکتب تشیع کا نظریہ

امامت کے بارے میں مکتب تشیع کے نظرئے کا درج ذیل جملوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔ امام اور اسلامی معاشرے کے حاکم اکا انتخاب اور تعیّن، خدا کی طرف سے ہوا اور پیغمبراکرمؐ کی طرف سے اس کا تعارف کرایا گیا ہو۔ رہبر و پیشوا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دین کے تمام اسرار ورموزسے آگاہ ہونے کے علاوہ مفسر قرآن بھی ہو اور ہر طرح کے خَلقی، خُلقی اور سببی عیوب و نقائص سے پاک اور معصوم ہو اوراس نے پاک خاندان میں جنم لیا ہو وغیرہ۔

کتاب: ڈھائی سو سالہ انسان، ص 71 الی 72، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے