مسئلہ فلسطین اور دنیائے اسلام کی فوری ذمہ داری! از رہبر انقلاب

عہدِ ولایت ویب پورٹل | مکتبِ ولایت کا جامع ترین آن لائن مرکز
اجمالًا خود آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر اس کو تبلیغ نہ کریں تو گویا انہوں نے رسالت کا کوئی کام انجام ہی
میدانِ غدیر میں درحقیقت ایک نظام کا اعلان ہوا تھا ایک ایسا نظام جو انسانیت کی حقیقی وپاکیزہ حیات کا ضامن ہو۔ ایک ایسا نظام جو انسانی معاشرے کی کامیابی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ امام باقر علیہ السلام حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ، جو کہ رسول اکرمﷺ کے بزرگ صحابی تھے، کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ وہ اس
مامون الرشید کی موجودگی اور علماء کی مجالس میں امام رضا(ع)کے علمی مناظرے، کہ جس میں انہوں نے امامت(کی حقانیت کو واضح کرنے)کے لئے مضبوط دلائل بیان کیے ہیں، جوامع
میلاد باسعادت حضرت علی بن موسی الرضا(ع)، اور اسی طرح آپ(ع)کی خواہر محترمہ حضرت فاطمہ معصومہ(س)کی ولادت ہمیں ان دو بہن اور بھائی کی عظیم و بابرکت تحریک اور بامعنا
اس دور میں کہ جب حضرت حمزہ(ع)اسلام لائے۔ وہ رسول الله(ص)کے لئے مشکل وقتوں میں سے ایک تھا۔ چونکہ (دین)اسلام عام ہوچکا تھا، (لہذا کفار)ہر طرف سے آنحضرت(ص)پہ حملے کرتے
(فہم قرآن کے متعلق)پہلا نکتہ یہ ہے کہ فہم قرآن اور اس(کتاب آسمانی)کی تبیین(بیان و وضاحت)، کسی بھی معاشرے کی عمومی ہدایت، اور انفرادی ہدایت اور معاشرے کے ہر شخص
یہ بات جان لیں اور اطمینان رکھیں کہ یہ(مشکل)حالات تبدیل ہوں گے۔ اطمینان رکھیں کہ آج دنیا میں ظلم و بربریت کا جو ماحول آپ مشاہدہ کررہے ہیں، بدتمیزی، بدمعاشی
باطن شاعر، شاعر کے شعر پر اثر انداز ہوتا ہے؛ کیونکہ آپ جو کچھ کہتے ہیں، وہ آپ کے باطن سے پھوٹتا ہے، آپ کا باطن جتنا پاکیزہ اور صاف
جوانی سے لطف اندوز ہونے کا مطلب ہے جوانی کو خدا کی اطاعت میں گذارنا۔ رسول خدا(ص)اپنے اصحاب کی جوانی کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے اور ان کے حق
ہمارے لئے جو چیز اہم ہے وہ انقلابی جذبہ، انقلابی مکتب اور انقلابی ثقافت ہے۔ کوشش کریں کہ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ آپ بسیجی، آج ملک میں
اگر ہم اس منطق اور بنیاد کو جس پر بسیج استوار ہے، دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو یہ دو الفاظ قوت ایمان اور جذبہ خود اعتمادی ہیں۔ یہ
آپ کی یہی بیداری، آپ کی یہی آمادگی، آپ کا یہی جذبہ آور آپ کا یہی احساس توانائی کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ آگے بڑھ سکتے ہیں، دنیا
آج الحمد للہ دنیا اس بات کو جانتی اور سمجھتی ہے کہ جو لوگ ان جرائم کے ساتھ انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں اور سید حسن نصراللہ، ہنیہ، سلیمانی
بعض دشمنی اور دیگر اغراض کے تحت مختلف مسائل کا غلط تجزیہ پیش کرتے ہیں۔جن لوگوں کا تعلق سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا سے ہے وہ ان نکات پر توجہ
نوجوانوں کے ساتھ ملاقات فطری طور پر نورانی ہوتی ہے۔ نوجوانوں کے قلوب کمتر آلودہ اور زیادہ نورانی ہوتے ہیں۔ حیف ہوگا اگر میں عزیز نوجوانوں کو روحانی نصیحت نہ
میں کئی بار یہ(بات)دہرا چکا ہوں کہ تعلیم و تربیت(کے میدان)میں سرمایہ کاری کریں، یہ(کام)دراصل سرمایہ کاری ہے، کوئی خرچ نہیں ہے؛ بلکہ ایک ایسا میدان تیار کرنے کے مترادف
افراد اور خاندانوں کی سعادت کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ فضول کی چیزوں کی پابندی، عیش و عشرت کی کثرت اور ضرورت سے زیادہ مادی امور سے
انسان کا مرد یا عورت ہونا ایک ثانوی مسئلہ ہے، ایک عارضی بات ہے جو صرف زندگی کے امور میں معنی و مفہوم پیدا کرتی ہے اور انسانی کمال و
عورت کے سلسلے میں اس وقت دنیا میں جو ہنگامہ بپا ہے، فیمینزم یا تانیثیت کا مسئلہ، عورت کے حقوق کا مسئلہ، خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کا
تمام لوگوں سے تاکید کرتا ہوں کہ شادیوں کو آسان بنائيں۔ بعض ہیں جو شادی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔
اسلامی نظام میں خواتین کو سیاسی سمجھ بوجھ ہونا ضروری ہے۔ انہیں گھر کی دیکھ بھال اور خاندان کی دیکھ بھال کے فن کا علم ہونا چاہیے۔ انہیں سماجی، سیاسی،
اسلام میں گھرانے کی تعریف ایک ایسی جگہ سے کی گئی ہے جہاں دو انسان سکون پاتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دو لوگوں کو ذہنی سکون ملتا ہے۔
گھرانے میں بھی نہی عن المنکر کیا جاسکتا ہے۔ کچھ خاندانوں میں خواتین کے حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا۔ بعض خاندانوں میں نوجوانوں کے حقوق کا احترام نہیں کیا
آج اسلامی حکومتوں کی فلسطین کے مسئلے پر بڑی ذمہ داری ہے۔ آج مصالحت، مصلحت اندیشی اور غیرجانبداری کی گنجائش نہیں، آج خاموشی اختیار کرنے کے دن نہیں۔
پہلا موضوع، «حوزهی علمیّہ»کا عنوان اور اس کا عمیق ترین مفہوم ہے۔ مروجہ ادبیات اس(موضوع)کے بارے میں مختصر اور ناقص ہیں۔ حوزه علمیہ اس سے برعکس ہے جو یہ ادبیات
لازم ہے کہ [سرزمین]فلسطین سے اس مجرم گروہ(اسرائیل) کا قلع قمع کیا جائے اور خدا کی مدد و طاقت سے اس کا قلع قمع کیا جائے گا۔ یہاں پہ اس
کیا کسی شخص کی قبر پر جانا اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے رحمت طلب کرنا اور اس روحانی اور معنوی فضا میں اپنے لیے رحمت طلب کرنا شرک
ان کا کام، ان کی سرگرمیاں، ایک واضح دہشت گردی ہے اور امریکہ اس کی حمایت کرتا ہے، کچھ مغربی حکومتیں بھی اس کی حمایت کررہی ہیں، جبکہ باقی سب
جو لوگ بغیر سمجھے، حقیقت کو سمجھے بغیر، بغیر تقویٰ کے، مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت کو دین سے خارج سمجھتے ہیں، انہیں (اسلام سے)خارج کرتے ہیں، تکفیر(کفر کا
میرے نزدیک، ہمارے موجودہ دور میں یہ مزاحمتی تحریک، یہ مزاحمتی حرکت، بعثت کی ایک جھلک ہے۔ مزاحمت جو اسلامی انقلاب سے شروع ہوئی، اس نے مسلمان قوموں کو بیدار
بندہ حقیر کی نگاہ میں جو(کام)زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ ہم(عمومی طور پہ تمام)معاشروں کو، (اس کے علاوہ)ہمارے اپنے معاشرے کو اولین ترجیح(کے طور)پہ، قرآن مجید کے
یہ ایام، ذیالحج کی پہلی دہائی کے ایام ہیں۔ آپ ہردل عزیز جوان، نورانی قلوب، روحانی طور پہ شاداب جذبات سے سرشار، میرے عزیز فرزندوں، توجہ رکھیں کہ فضیلت اور
ایک شخص نے امام المتقین امام علی ع کے سامنے میں یہ دعا کی: "خدایا! مجھے اپنی مخلوق کا محتاج نہ بنا۔" مولا ع نے فرمایا: "ایسے نہ کہو۔" اس
لیله القدر کا وجہ تسمیہ(نام رکھنے کی علت پہ)کے موضوع پہ علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض(علماء)کا اعتقاد ہے کہ چونکہ یہ رات(بہت زیادہ)شرف و منزلت کی حامل ہے،
(فہم قرآن کے متعلق)پہلا نکتہ یہ ہے کہ فہم قرآن اور اس(کتاب آسمانی)کی تبیین(بیان و وضاحت)، کسی بھی معاشرے کی عمومی ہدایت، اور انفرادی ہدایت اور معاشرے کے ہر شخص
روزہ بھی دیگر تمام عبادات کی طرح نیت کے ساتھ ہونا ضروری ہے، یعنی یہ کہ انسان کا کھانے، پینے اور روزے کو باطل کرنے والی دوسرے اعمال سے پرہیز
یعنی اے وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ اگر میں کوئی نیک عمل کروں یعنی اس کے اجر کی امید رکھتا ہوں... یعنی آپ اپنے آپ کو برے
ہمیں پورے وجود کے ساتھ اسلام کی راہ میں قدم بڑھاتے جانا چاہئے۔ہم کو اپنا یہ ہدف نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ استقامت کا مطلب ہے گمراہ نہ ہونا، اپنی راہ
ذکر یعنی یاد خدا، یاد خدا سے غافل نہ ہوں۔ دعا ومناجات اور تلاوت قرآن سے دور نہ ہوں۔ میں ہمیشہ قرآن سے انسیت کی تاکید کرتا ہوں۔ قرآن کی
آج اسلامی حکومتوں کی فلسطین کے مسئلے پر بڑی ذمہ داری ہے۔ آج مصالحت، مصلحت اندیشی اور غیرجانبداری کی گنجائش نہیں، آج خاموشی اختیار کرنے کے دن نہیں۔
میدانِ غدیر میں درحقیقت ایک نظام کا اعلان ہوا تھا ایک ایسا نظام جو انسانیت کی حقیقی وپاکیزہ حیات کا ضامن ہو۔ ایک ایسا نظام جو انسانی معاشرے کی کامیابی
میں کئی بار یہ(بات)دہرا چکا ہوں کہ تعلیم و تربیت(کے میدان)میں سرمایہ کاری کریں، یہ(کام)دراصل سرمایہ کاری ہے، کوئی خرچ نہیں ہے؛ بلکہ ایک ایسا میدان تیار کرنے کے مترادف
افراد اور خاندانوں کی سعادت کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ فضول کی چیزوں کی پابندی، عیش و عشرت کی کثرت اور ضرورت سے زیادہ مادی امور سے
پہلا موضوع، «حوزهی علمیّہ»کا عنوان اور اس کا عمیق ترین مفہوم ہے۔ مروجہ ادبیات اس(موضوع)کے بارے میں مختصر اور ناقص ہیں۔ حوزه علمیہ اس سے برعکس ہے جو یہ ادبیات
یہ ایام، ذیالحج کی پہلی دہائی کے ایام ہیں۔ آپ ہردل عزیز جوان، نورانی قلوب، روحانی طور پہ شاداب جذبات سے سرشار، میرے عزیز فرزندوں، توجہ رکھیں کہ فضیلت اور
مامون الرشید کی موجودگی اور علماء کی مجالس میں امام رضا(ع)کے علمی مناظرے، کہ جس میں انہوں نے امامت(کی حقانیت کو واضح کرنے)کے لئے مضبوط دلائل بیان کیے ہیں، جوامع
میلاد باسعادت حضرت علی بن موسی الرضا(ع)، اور اسی طرح آپ(ع)کی خواہر محترمہ حضرت فاطمہ معصومہ(س)کی ولادت ہمیں ان دو بہن اور بھائی کی عظیم و بابرکت تحریک اور بامعنا
لیله القدر کا وجہ تسمیہ(نام رکھنے کی علت پہ)کے موضوع پہ علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض(علماء)کا اعتقاد ہے کہ چونکہ یہ رات(بہت زیادہ)شرف و منزلت کی حامل ہے،
ملتوں کو چاہیے کھڑی ہو جائیں اور اپنے علاقے کی فوجوں سے، اپنے علاقے کی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ ان فلسطینیوں کی اور ان شامیوں کی، جن پر
جیسا کہ ہم تصور کرتے ہیں،قرآن کریم حضرت آدمؑ کی داستان میں، کہ جسے ایک پُر اسرار داستان سے تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت نصیحت
جو چیز خدا کے لئے ہوتی ہے وہ آسان ہو جاتی ہے۔ کربلا خدا کے لئے تھی اور چونکہ خدا کے لئے تھی، اس لیے آسان تھی۔
ہماری قوم ایسی ہے۔ اگر بعد میں بھی ہماری کچھ شخصیات خدا نخواستہ، شہید ہو جائیں، تو ہماری قوم بھی یہی قوم رہے گی اور ہماری نہضت بھی اسی طرح
امام جعفر صادقؑ کے لیے علم فقہ کی نشوونما اور اس کے اظہار کا موقع تھا اور بعض مسائل البتہ غیر فقہی بھی تھے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا کہ
امیر المومنینؑ سے روایت ہے کہ آپ نے اس مہینے کی فضیلت میں فرمایا کہ الله تعالیٰ نے اس مہینے کا نام شعبان اس لیے رکھا کہ اس میں نیکیاں
3 شعبان المعظم، یہ محافظ قرآن اور اسلام کی ولادت کا عظیم اور بابرکت دن ہے، جس نے اپنے مقصد کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا، اس طرح
اجمالًا خود آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر اس کو تبلیغ نہ کریں تو گویا انہوں نے رسالت کا کوئی کام انجام ہی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ امام باقر علیہ السلام حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ، جو کہ رسول اکرمﷺ کے بزرگ صحابی تھے، کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ وہ اس
ایک شخص نے امام المتقین امام علی ع کے سامنے میں یہ دعا کی: "خدایا! مجھے اپنی مخلوق کا محتاج نہ بنا۔" مولا ع نے فرمایا: "ایسے نہ کہو۔" اس
ہمارے زمانے میں بھی جہاں کہیں استعمار قدم رکھتا ہے، وہ اُسی موضوع پر زور دیتا ہے جس کے بارے میں قرآن نے خبردار کیا ہے؛ یعنی وہ دلوں کو
ایمان اور عمل، قرآن میں دو لازم و ملزوم ہیں جو کسی بھی صورت میں تنہا فائدہ نہیں دیتے۔ اسلام ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ ایمان اور عمل، اس طرح
اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی عادات اور فطرت پر قابو پانے کے لیے اپنے اختیار کو تقویت دے۔ اس کا مطلب ہے قوت ارادی کو مضبوط کرنا
میں نے تقریباً بارہ سال تک اس عظیم انسان کے حضور میں تعلیم حاصل کی، حال ہی میں پیرس کے دورے پر جب میں ان سے ملاقات کے لیے گیا
کبھی نہیں دیکھا گیا کہ جناب سلمان فارسی، جناب ابوذر، عمار یاسر اور مالک اشتر یہ کہیں کہ ہم علیؑ والے ہیں، ہم علیؑ کے چاہنے والے ہیں۔ ہمارے(ہماری نجات
میں تمام مسلمانوں بلخصوص نوجوانوں سے درخواست کروں گا کہ وہ عالم اسلام کے حقیقی پیشوا اور مستضعفین جہاں کی امید حضرت امام خمینی (رہ) کے افکار کو ملک کے
عالمی استعمار کی مسلم نوجوانوں کے خلاف فکری اور ثقافتی یلغار نے مسلم قیادتوں کو سنجیدہ غورو خوض پر مجبور کردیا ہے۔ اس سلسلے میں قائد شہید علاّمہ رارف حسین
میں اپنے شیعہ بھائیوں کی خدمت میں عرض کروں گا، ہمیں علم ہے کہ آپ کی اہل بیت کے ساتھ کتنی محبت ہے۔ آپ کس قدر عزاداری سید مظلوم علیہ
Previous Next مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں ہماری بدقستمی ہے کہ مسلمانوں نے ابھی تک اپنے آپ کو نہیں پہچانا، اگر مسلمان اپنے آپ کو پہچان لیں تو فلسطین، لبنان،
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمیں آپ کے جذبات اور احساسات کا علم ہے، جس کا ہم احترام کرتے ہیں مگر آپ
دشمن کی زہریلی سازشوں نے نہ صرف ہمارے جذبات کو مجروح کیا ہے فلکہ اس سے ملت مسلمہ کے اتحاد اور محبت و اخوت کے رشتوں کو ٹھیس پہنچی ہے۔
ہم سنت رسول ص کے ساتھ ساتھ آپ سنت ائمہ اطہار علیھم السلام کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔ جب ہمارا عقیدہ ہے کہ دین سیاست سے جدا نہیں تو ہم
Previous Next کام کرو لیکن خدا کے لیے قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی اعلی اللہ مقامہ کا جوانوں سے خطاب : برادران عزیز! کام کرو لیکن خدا کے لیے،