امام جوادؑ، استقامت و مقاومت کا پیکر از رہبر انقلاب

مقتدیٰ اور نمونہ عمل
ہمارے دوسرے ائمہ طاہرین کی طرح حضرت امام محمد تقیؑ کی زندگی بھی ہمارے لیے قابل اقتداء اور نمونہ عمل ہے۔ اللہ تعالی کے اس نیک اور شائستہ بندے کی مختصر زندگی بھی کفر و طغیان کے خلاف برسر پیکار اقدامات میں گزری ہے۔ آپ نوجوانی ہی میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور اپنی پوری زندگی اللہ تعالی کے دشمنوں سے جہاد کرتے رہے اور صرف بیس (۲۵) سال، یعنی عین جوانی کے عالم میں ہی آپ کا وجود مبارک دشمنوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا اور آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔
آپ کی زندگی کا اہم ترین درس

جس طرح ہمارے دیگر ائمہ اطہارؑ میں سے ہر ایک نے اپنے جہاد کے ذریعے اسلام کی پرافتخار تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا، امام محمد تقیؑ نے بھی اپنے عمل کے ذریعے جہاد کر کے ہمارے لیے ایک اہم درس چھوڑا ہے اور وہ درس یہ ہے کہ جب بھی بھی منافق اور ریاکار حکمرانوں اور قدرتمندوں سے واسطہ پڑ جائے تو ہمیں ہمت سے کام لیتے ہوئے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ مومنین کو اس سے باخبر کرنا، انہیں دشمن کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار اور آمادہ کرنا چاہیے۔ اگر دشمن کھلے عام اور آشکارا طور پر اپنی دشمنی کا اظہار کرے اور ریاکاری کا مظاہرہ نہ کرے تو پھر اس سے نمٹنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جب دشمن مامون عباسی کی طرح اپنے چہرے پر تقدس کا نقاب ڈال کر اسلام کی باتیں کرنے لگے تو پھر لوگوں کے لیے ایسے دشمن کی پہچان مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں، بلکہ پوری تاریخ میں طاقتور لوگوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ جب وہ سامنے آ کر مقابلہ کرنے سے عاجز ہوتے ہیں تو پھر ریاکاری اور منافقت سے کام لیتے ہیں۔ حضرت امام علی رضاؑ اور حضرت امام محمد تقیؑ نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ مامون کے چہرے سے ریاکاری اور منافقت کر پردے کو اتار کر پھینک دیں اور وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔

مقاومت و استقامت کی نشانی اور علامت

به بزرگوار امام مقاومت و استقامت کی نشانی اور علامت ہیں۔ ایک ایسے عظیم انسان ہیں کہ جنہوں نے اپنی پوری مختصر سی زندگی بنو عباس کے اس ریاکار خلیفہ مامون عباسی سے مقابلے میں گزاری اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور مشکل سے مشکل حالات کو برداشت کیا اور تمام ممکن طریقوں سے ان کا مقابلہ کیا۔ حضرت امام محمد تقی میاندم وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آزادانہ بحث و مباحث کا آغاز کیا اور مامون کی موجودگی میں مختلف مذاہب کے علماء، فقہاء اور دانشوروں کے ساتھ دقیق ترین اور مشکل ترین موضوعات پر دلیل اور استدلال کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اپنی برتری ثابت کی ہے۔ لہذا آزادانہ بحث و مباحثے کا یہ اسلوب ہماری میراث ہے اور یہ ہمارے ائمہ معصومینؑ کے دور میں رائج رہا ہے اور حضرت امام محمد تقیؑ کے دور میں آپ ہی کے ذریعے اس خوبصورت طریقے کا آغاز ہوا ہے۔

منبع: کتاب ۲۵۰ سال انسان

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے