با مقصد ازدواجی طرز زندگی از رہبر انقلاب

یہ آپ میاں بیوی کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے تمام جزوی اور کلی حالات اور اوضاع کا خیال رکھیں ،ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دوسرے کے یارو مددگار بنیں خصوصاً راہِ خدا اور فرائض و واجبات کی انجام دہی میں ۔

اگر شوہر راہِ خدا میں قدم اٹھانا چاہتا ہے تو بیوی مدد کرے اور اگر بیوی کسی وظیفے اور واجب کام کو انجام دینا چاہتی ہے تو شوہر اس کا مددگار بنے ۔یہ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ راہِ خدا میں جدوجہد کریں اور ایک دوسرے سے مکمل تعاون کریں ۔

زوجین ایک دوسرےکی تکمیل میں ساتھ دیں
اگر گھر کا مرد علمی میدان یا قومی مسائل اور ملی و اجتماعی تنظیموں
میں سرگرم عمل ہے تو بیوی کو چاہیے کہ اس کی مدد کرے تا کہ وہ اپنے کاموں کو با آسانی انجام دے سکے۔ اسی  طرح مرد حضرات کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ گھر کی خواتین کو یہ موقع دیں کہ وہ بھی روحانیت و معنویت کی راہ میں قدم اٹھائیں۔ اگر وہ تحصیل علم کی خواہش مند ہیں تو اپنی اس خواہش کو بآسانی عملی جامہ پہنا سکیں اور اگر وہ اجتماعی کاموں میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو وہ بغیر کسی مشکل کے اس میدان میں وارد ہو سکیں۔
زندگی کے ان ہمراہیوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی راہ خدا کی طرف راہنمائی وہدایت کریں ،صراط مستقیم پر قدم اٹھانے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی تاکید اور کوشش کریں۔ تَوَاصَوْابِالحَقِّ َوَ تَوَاصَوْابِالصَّبْرِ(حق بات کی نصیحت اور صبر کی تلقین) کو ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ جو مسلمان ہونے کا خاصہ اور ایمان کی علامت ہے۔

ایک دوسرے کے دینداری کا خیال رکھیں
اپنے خدائی ہدف کے حصول کے خواہشمند میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے دیندار ہونے اور تقویٰ کا خیال رکھنے کیلئے ایک دوسرے کے ہاتھوں کو تھامیں۔ شوہر کی کوشش یہ ہو کہ اس کی بیوی دیندار ہو اور زندگی کے ہر لمحے میں تقویٰ کا خیال رکھے۔ اسی طرح عورت بھی اپنے شوہر کی مدد گار بنے تاکہ وہ اپنے دین کی بنیادوں کو مستحکم بنائے، پاکدامن رہے اور تقویٰ کے سائے میں اپنی زندگی گزارے۔
یہاں بیوی کی مدد سے مراد صرف گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، برتن دھونا اور گھر کی صفائی وغیرہ میں اس کی مدد کرنا نہیں ہے۔ صحیح ہے کہ یہ بھی بیوی کی مدد ہے لیکن بیوی کی مدد سے مراد زیادہ تر روحی طور پر اسے مضبوط بنانا اور اُس کی اِس طرح فکری اور معنوی مدد کرنا ہے کہ دونوں راہِ اسلام پر کار بند اور ثابت قدم رہیں۔

ایک دوسرے کو تقویٰ، صبر، دینداری، حیا، عفت، قناعت اور سادہ زندگی جیسے دیگر اہم امورِ زندگی کی تلقین ونصیحت کریں اور اس راہ میں ایک دوسرے کی دستگیری کریں تاکہ زندگی کو بہترین طریقے سے گزار سکیں، انشاء اللہ۔

                            کتاب: طلوع عشق، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے