جوانی میں شادی, رہبر معظم کی نگاہ میں

وقت ِ ضرورت، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونا

اسلام کي يہي خواہش ہے کہ يہ مقدس امر اپنے صحيح وقت پر کہ جب اِس کي ضرورت محسوس کي جائے جتنا جلدي ممکن ہو، انجام پائے۔ يہ وہ امور ہيں جو صرف اسلام ہي سے مخصوص ہيں۔ يعني جتني جلدي ہو بہتر ہے۔

جلدي اس لئے کہ وہ وقت کہ جب لڑکا و لڑکي اپنے جيون ساتھي کي ضرورت محسوس کريں تو يہ کام جتنا جلدي ممکن ہو انجام پائے، بہتر ہے۔

اس کا سبب يہ ہے کہ اوّلاً، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے دامن ميں چھپي ہوئي خير و برکات اپنے صحيح وقت پر انسان کو حاصل ہوں گي قبل اس کے کہ زمانہ گزرے يا اس کي زندگي کا بہترين حصہ گزرجائے۔

دوسري بات يہ کہ وقت پر شادي جنسي انحرافات اور بے راہ روي کا راستہ روکتي ہے۔ لہٰذا حديث ميں ارشاد ہوا ہے کہ ’’مَنْ تَزَوَّجَ اَحرَزَ نَصْفَ دِيْنِہِ‘‘  (جس نے وقت پر شادي کي اس نے اپنا نصف دين محفوظ کر ليا)۔

اس روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے دين و ايمان کو متزلزل کرنے والے آدھے حملے اور ان کو لاحق خطرات صرف جنسي انحرافات اور بے راہ روي کي وجہ سے ہيں۔

شادي کي برکتيں اور فوائد



رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو کر ايک دوسرے کا شريک
حيات اور جيون ساتھي بننا اور ’’خوشحال گھرانے‘‘ کي ٹھنڈي فضا ميں سانس لينا دراصل
زندگي کے اہم ترين امور سے تعلق رکھتا ہے۔

شادي، مرد اور عورت دونوں کے روحاني آرام و
سکون اور مل جل کر زندگي کي گاڑي کو دلگرمي کے ساتھ چلانے کا ايک وسيلہ ہے۔

 


يعني ايک دوسرے کي ڈھارس باندھنے، اطمينان قلب
اور ايک ’’غمخوار‘‘ و ’’مونس‘‘ کي تلاش کا وسيلہ ہے کہ جس کا وجود مياں بيوي کي
مشترکہ زندگي کا جزوِلا ينفک ہے۔

شادي، انسان کي جنسي، شہوتي اور جبلّتي جيسي
فطري ضرورتوں کا مثبت جواب دينے کے علاوہ توليد نسل اور صاحب اولاد ہونے جيسي
زندگي کي بڑي خوشيوں کو بھي اپنے ہمراہ لاتي ہے۔

اگر شادي اور اس کے فلسفے کو صحيح طور پر درک کيا جائے اور يہ صحيح طور پر انجام پائے تو جو اني کي شادياں اچھي اور بہت پائيدار ثابت ہوں گي اور ايسے خاندان ميں مياں بيوي مکمل طور پر ايک دوسرے کے سچے دوست اور اچھے جيون ساتھي ثابت ہوں گے۔

جواني کے عشق و شوق ميں شادي

حضرت ختمي مرتبت اس بات پر بہت زيادہ تاکيد فرماتے تھے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکياں جلدي شادي کريں۔ البتہ اپنے ميل و رغبت اور اختيار سے، نہ يہ کہ دوسرے ان کي جگہ فيصلہ کريں۔ ہميں چاہيے کہ اپنے معاشرے ميں اس بات کو رواج ديں۔

نوجوانوں کو مناسب سن و سال ميں کہ جب ان کي نوجواني کي بہار اپنے عروج پر ہو، عشق و شوق کي اس جوش و گرمي کے ساتھ شادي کرني چاہيے۔

 يہ بات بہت سے افراد کے نظريات اور خيالات کے بر خلاف ہے کہ جو يہ خيال کرتے ہيں کہ جواني کے زمانے کي شادي دراصل ’’وقت سے پہلے کِھلنے والا پھول‘‘ ہے کہ جو جلد ہي مرجھا جاتا ہے ليکن حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے