خدا کی یاد و ذکر سے نئی زندگی کی ابتداء از رہبر انقلاب

قلیل حقِ مہر اور کم جہیز

حضرت فاطمہ س حضرت ختمی مرتبتؐ کی صاحبزادی تھیں کہ جو پوری اسلامی دنیا کے سربراہ اور حاکم مطلق تھے جبکہ امام علیؑ سپاہِ اسلام کے اول درجہ کے سردار تھے۔ یہ افراد خداوندِ عالم کی بارگاہ میں عرفان و قربِ الہی کے بلند و بالا مقامات کے حامل ہیں اور ان کا شمار اپنے زمانے کی بڑی عظیم شخصیات میں ہوتا تھا۔ آپ یہ دیکھئے کہ انہوں نے کیسی شادی کی؟ کتنا کم حقِ مہر اور کتنا کم جہیز اور خدا کے نام اور اس کی یاد و ذکر کے ساتھ ان کی زندگی کی ابتدا ہوئی۔ یہ ہمارے لئے بہترین مثال اور اسوہ ہیں۔

خدا کی راہ می ایک دوسرے کے مددگار

جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی زوجیت میں آتی ہيں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت علی اپنی توانائی کا ایک حصہ، جو خدا کی راہ کے علاوہ کہیں خرچ نہیں ہوتی تھی اور خدا کے علاوہ کسی کے لیے استعمال نہیں ہوتی تھی، اب خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے مختص کر رہے ہیں جس کا نام زوجہ ہے، نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس توانائی کو، جسے وہ اب تک خدا کی راہ میں استعمال کر رہے تھے، اب بھی خدا کی راہ میں ہی خرچ کریں گے لیکن ایک دوسرے متحرک اور متلاشی انسان کی مدد سے کہ وہ بھی خدا کے لیے ہے اور خدا کی راہ میں ہے، وہ انسان بھی اپنی تمام تر توانائيوں کو خدا کی راہ میں استعمال کرتا رہا ہے تاکہ ان دونوں کا سنگم، دو انفرادی توانائيوں کا ملاپ، ایک زیادہ کارآمد اجتماعی توانائي پیدا کرے۔

پہلے سے زیادہ متحرک

یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے شادی کے بعد ایک زیادہ دلاور سپاہی ہیں اور زیادہ متحرک انسان ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی توانائي کے ساتھ ایک اور توانائي جڑ گئي ہے اور ان کی ضرورتوں کو، جو ممکنہ طور پر انھیں کام سے، تحرک سے اور آگے بڑھنے سے روک سکتی تھیں، ان کے ہی جیسا ایک انسان پورا کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے اس توانائي کا کوئي بھی حصہ رائيگاں نہیں جا رہا ہے بلکہ یہ پوری کی پوری توانائي خدا کی راہ میں بہتر سے بہتر طریقے سے، زیادہ سے زیادہ اور زیادہ تیزی سے استعمال ہو رہی ہے۔

مثالی گھرانی اور تربیتِ اولاد کے اصول

اولاد اور بچے کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ اسلامی نظریے سے اولاد اور بچہ، آگے بڑھنے اور تحرک کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے، زیادہ اونچی جست کا وسیلہ ہونا چاہیے، انسان کے پیروں میں بیڑیوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے، ایک پتھر کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو انسان کو پرواز کرنے سے تو درکنار، اس کی اپنی معمولی رفتار سے بھی روک دے۔ اس سوچ اور نظریے سے ممکن ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اولاد کے طور پر جو اسے دیا گیا ہے، وہ خدا کی طرف سے ایک امانت ہے اور اس امانت کو اسے حتی المقدور اس کی آفرینش کے مقصد اور ہدف کی راہ میں لگانا ہے۔ یہ بال و پر سے محروم ایک پرندے کی طرح ہے جس کے ماں باپ اپنی شفقت آمیز پرورش کے ذریعے اس کے بال و پر کو سنوارتے ہیں تاکہ وہ اونچائي پر پرواز کر سکے؛ اس بات کو اس نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔ اگر ہم کسی پرندے سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس کے پر کاٹ کر، اس کے بالوں کو اکھاڑ کر اور اس کے پیروں کو باندھ کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر میں اور اپنے پنجرے میں رکھ لیں۔ اس کی مدد تو یہ ہے کہ اسے اس کی فطری سمت میں، اس راہ پر آگے بڑھنے میں جو اس کے لیے متعین ہے، اس کی مدد کریں، آب و دانہ دینا، اسی مقصد کے لیے ہے۔ تو آپ دیکھیے کہ اگر ہم اس نظریے سے بیوی اور بچوں کو دیکھیں تو ہماری بہت سی غلط فہمیاں، غلط نظریات اور غلط کام اپنے آپ ہی دور ہو جائيں گے۔

صحیح اسلامی افکار کو متعارف کرانے کی ضرورت

یہ چیز ہمیں ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف متوجہ کراتی ہے اور اس حقیقت کو ماننے کے لیے آمادہ کرتی ہے کہ ہم نے کوتاہی کی ہے۔ حالانکہ اس وقت کی دنیا، عمیق انسانی افکار سے پیدا ہونے والی ثقافتوں کی تجلی کی دنیا ہے اور ایسی دنیا ہے جس کے بازار میں، عالمی افکار کی منڈی میں ایک صحیح سوچ، ایک رہنما سوچ اور انسان کی ذات، اس کی حقیقت اور وجود سے نکلنے والی سوچ سے زیادہ بارونق کوئي متاع نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی افکار اور اسلامی نظریات کے ادراک کے لیے جو انسانی فطرت کے مد نظر پیش کیے گئے ہیں، اب بھی ہم نے اس طرح سے کوشش اور کام نہیں کیا ہے جیسا کہ کیا جانا چاہیے تھا اور اب بھی بہت سے اسلامی مسائل ہمارے لیے واضح نہیں ہیں۔

حوالہ: رہبر انقلاب کی 31 مارچ 1977 کو ایک عقد کے موقع پر تقریر

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے