شہادت اتنی سستی نہیں! از رہبر انقلاب

شہداء، اعلیٰ روحانی مقام کے حامل!

شہید اعلیٰ ظاہری مقام کے علاوہ اعلیٰ روحانی مقام کے بھی حامل ہیں۔ اس کی دلیل بھی خود انکی شہادت ہی ہے، جو شخص شہید ہوتا ہے اور اسے یہ رتبہ دیا گیا ہے ان افراد کے باطن، فطرت اور اعمال میں بعض شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط کے بغیر کسی کو شہادت نصیب نہیں ہوتی۔ وہ شخص اس اعلیٰ روحانی مرتبے کا حامل تھا اور اسی وجہ سے وہ شہید ہو گیا۔ ورنہ ان صفات کے بغیر کسی کا شہید ہونا ممکن نہیں۔

 

 

 

شہادت محض جنگ میں قربان ہونا نہیں!

ہمیں شہادت کے تصور کو صحیح طور پر سمجھنا چاہیے کیونکہ شہادت کا مطلب محض جنگ میں قربان ہونا نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو جنگوں میں حصہ لیتے ہیں اور جو اپنے ملکوں کیلئے جنگوں میں مارے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اپنے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے حب الوطنی اور وطن پرستی سے سرشار یہ عمل انجام دیتے ہیں۔ بے شک، بعض اجیر کئے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن اسی جذبے سے قربانی دیتے ہیں۔

تاہم ہمارے شہداء ایسے نہیں ہیں۔ ہمارے جنگجوکا ہدف جو میدان جنگ میں داخل ہوتا ہے۔ اب، چاہے اسا یہ قدم شہادت یا معلولیت پر منتج ہو یا نہیں، صرف جغرافیائی سرحد کا دفاع نہیں ہے۔ وہ اعتقاد کی سرحدوں، اخلاقیات کی سرحدوں، مذہب کی سرحدوں، ثقافت کی سرحدوں، اپنی شناخت کی حدود، ان اہم روحانی حدود کے دفاع کیلئے میدان جنگ میں قدم رکھتا ہے۔ بلاشبہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع بھی ایک قیمتی چیز ہے اور اور اقدار میں سے ہے۔ لیکن فقط یہ ہدف کہاں ہے اور اس چیز کا ان دیگر اہم اور اعلیٰ اہداف سے مل جانا کہاں! ہمارے شہداء کا مسئلہ یہ ہے۔

شہید، خدا کے ساتھ اپنی جان کا سوداگر

اگر ہم مسئلہ شہادت کو اس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھنا چاہیں تو ہمارا شہید درحقیقت «اِنَّ اللّهَ اشتَرى مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّة» ‘‘ کا مصداق اور مظہر ہے؛ یعنی وہ خدا کے ساتھ اپنی جان کا سودا کر رہا ہے؛ شہید یہ ہے۔ یا وہ عظیم آیت کہ: "مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ فَمِنهُم مَن قَضى نَحبَهُ وَمِنهُم مَن يَنتَظِر»(۵) یعنی انھوں نے خداوند عالم کے ساتھ اپنے کے ہوئے عہد، اور وعدے پر سچائی اور دیانت سے کام لیا ، شہید یہ ہے؛ یعنی یہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے، یہ خدا کے ساتھ ایک معاہدہ ہے۔

مومن، روایتی جنگجوؤں سے مختلف

اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کے میدان کا ایک سپاہی دنیا کے روایتی جنگجوؤں سے مختلف ہے۔ میدانِ جنگ میں، آپ نے یعنی آپ میں سے ان لوگوں نے جو اُس وقت وہاں موجود تھے یقیناً دیکھا ہوگا، اور بعض نے کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ مقدس دفاع کے زمانے میں یا اسی طرح بعض دوسرے دفاعی محاذوں پر’’ مدافعین حرم‘‘ یا ان کے مثل مومن مجاہد جب میدان جنگ میں ہوتے ہیں، ان کا اخلاص معمول سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، وہ توکل سے زیادہ کام لیتے ہیں ، ان میں تواضع زیادہ پایا جاتا ہے اور وہ حدود الٰہی کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے