مکتب اہل بیتؑ میں امامت کا تصور از رہبر انقلاب

پہلی اور دوسری صدی ہجری کے مسلمانوں کی نظر میں جہاں لفظ امامت صرف سیاسی رہبری اور قیادت کے معنی میں استعمال ہوتا تھا وہاں وہاں شیعوں کے مخصوص نظرئے کے مطابق سیاسی رہبری کے علاوہ فکری اور اخلاقی رہبری کے مفہوم کو سموئے ہوئے تھا۔

مکتب تشیع میں امام دائرہ عمل

جب شیعہ کسی کو اپنا امام تسلیم کرتے تھے تو وہ اس سے صرف سیاسی اور اجتماعی مسائل کی دیکھ بھال کی توقع نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اس سے فکری تربیت، دینی تعلیم اور تزکیہ نفس کی توقع رکھتے تھے اور اگر کوئی امامت کا دعویدار ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا تو وہ ایسے شخص کو امام برحق نہیں مانتے تھے۔ مکتب تشیع میں صرف سیاسی بصیرت، جنگی قدرت و طاقت اور کشور کشائی جیسی صفات پر (جنہیں دیگر مکاتب فکر میں قیادت کی صلاحیت کے لئے کافی سمجھا جاتا تھا) اکتفا نہیں کیا جاتا تھا۔

مکتب تشیع میں رائج امامت کا مفہوم

مکتب تشیع میں رائج امامت کے مفہوم کے مطابق کسی معاشرے میں بسنے والے تمام لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے امور کی بہترین انداز میں دیکھ بھال کی قدرت فائقہ کا حامل انسان ہی امام وقت کہلانے کا اہل ہوسکتا ہے، جو ایک ہی وقت میں لوگوں کے دینی معاملات بھی سدھارتا ہو اور ان ان کی اخلاقی تعلیم و تربیت اور سیاسی امور کی دیکھ بھال بھی کرتا ہو۔

پس اس گفتگو کی روشنی میں حضرت پیغمبر اکرمؐ بھی امام ہیں کیونکہ جس معاشرے اور تہذیب کی بنیاد آپؐ نے اپنے بابرکت ہاتھوں سے رکھی تھی اس کا فکری اور سیاسی انتظام اور رہبریت بھی آپ ہی کے ہاتھ میں تھی اور

جانشین پیغمبرؐ کی ضرورت

آپؐ (پیغمبر اکرمؐ) کی رحلت کے بعد بھی امت کو ایک امام کی ضرورت تھی تا کہ وہ حضور اکرمؐ کے جانشین (خلیفہ) کی حیثیت سے امامت کی ان بھاری ذمہ داریوں (منجملہ فکری اور سیاسی رہبریت) کو اپنے کاندھوں پر اٹھا سکے۔ لہٰذا شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خود حضور اکرمؐ کے فرمان کے مطابق آپؐ کے بعد آپؐ کے جانشین اور خلیفہ بلا فصل امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں اور ان کے بعد یہ عہدہ آپ کے خاندان سے وابستہ دیگر ائمہ معصومینؑ کو یکے بعد دیگرے منتقل ہوتا رہا۔

کتاب: ڈھائی سو سالہ انسان، ص 72 الی 73 ، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے