گھرانے کی خواہشات کا خیال رکھیں از رہبر انقلاب

مؤمن کی غذا کیسی ہو؟

فى الكافى عن النبى(صلى عليه وآله):

"المؤمن ياكل بشهوة أهله”مومن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں(بیوی بچوں،یا وہ لوگ کہ جو اسکے ساتھ رہتے ہیں) کے مزاج کے مطابق،خواہش کے مطابق کھانے کا انتخاب کرتا ہے.یہ مؤمن کی علامات میں سے ایک ہے.آپ ملاحظہ کریں کہ مؤمن کی وہ تعبیر جو ہمارے ذہن میں ہے اور جو اس روایت میں بتائی جارہی ہے،دونوں میں کتنا فاصلہ ہے۔

 

 

 

صرف روزہ اور نماز مؤمن کی علامت نہیں!

روایات کے مطابق مؤمن کی جو تصویر کھینچی گئی ہے،اس میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے،من جملہ ایمانِ قلبی،عملی سلوک،اخلاقی خصوصیات،معاشرتی برتاؤ اور رفتار و آداب.مؤمن اسے کہتے ہیں.مؤمن وہ نہیں جو صرف روزہ اور نماز کی پابندی کرے لیکن بد اخلاق ہو۔

 

 

 

 

 

 

وہ مؤمن جو شمر سے بدتر ہو!

ایک واقع عرض ہے،مرحوم شیخ عبد الکریم سے کسی نے کہا کہ ایک شہر میں فلان آدمی کا کردار کچھہ ایسا(یعنی بد اخلاق)ہے کہ جس پہ آقا بہت ناراض ہوگئے تھے.اسکے بعد ان سے کہا کہ وہ بڑا مؤمن انسان ہے!جس پہ آپ نے جواب دیا کہ مؤمن تو ہے لیکن شمر سے بد تر ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آقای شیخ عبد الکریم کے مطابق،اور روایت کے مفہوم کے مطابق کچھہ افراد ظاہر میں مؤمن ہوتے لیکن انکا اخلاق و کردار ایمان کی تعریف کے برعکس ہوتا ہے اور انہیں مؤمن کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔

 

 

مؤمن اور منافق کی علامت!

مؤمن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ کھانے کے وقت گھر والوں کے شوق کا خیال رکھتا ہے.دہیان رکھتا ہے کہ وہ کیا پسند کرتے ہیں؟یہ علامت مؤمن ہے.اسکے برخلاف منافق کے بارے میں ارشاد ہوا ہے”و المنافق ياكل أهله بشهوة”لیکن ممکن ہے کہ یہاں پہ منافق سے مراد وہ منافق کہ قرآن نے جس پہ لعنت کی ہے مد نظر نہ ہو.یہاں پہ مراد وہ شخص ہے کہ جو دین کے ظاہری احکام کی پابندی کرتا ہو لیکن دین اور اسکے اعمال میں گہرا رابطہ موجود نہ ہو۔

 

 

 

 

منافق کون ہے؟

منافق کے بارے میں کہا گیا ہے”و المنافق ياكل أهله بشهوة”.ایسا انسان چاہے دوپہر کا کھانا ہو یا رات کا،اسکے اھل و عیال چاہے انہیں پسند ہو یا نہیں اسکے مطابق کھانا کھانے پہ مجبور ہوں.یہ انسان منافق ہے،مؤمن نہیں ہے.یہاں پہ مراد صرف گھر کا سرپرست نہیں.گرچہ ایک آشکار نمونہ گھر کا سربراہ(مرد)ہے.لیکن بیوی بھی اسکا مصداق ہو سکتی ہے،اسکا شوہر اور بچے اسکے اہل و عیال ہیں.ماں باپ،ملازم وغیرہ یہ سب اہل و عیال ہیں.

 

 

 

ہوگا وہی جو میں چاہتا ہوں!

اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسکا عمل و کردار مومنانہ ہو تو دوسروں کی پسند ناپسند کا خیال کریں.اس کھانے پینے سے قیاس کیا جاسکتا ہے،چونکہ موضوع بحث دوسروں کی پسند ناپسند ہے.یہاں فقط پیٹ کا مسئلہ نہیں،دوسری عادتوں میں بھی اسی طرح ہےمثلا اگر کوئی شخص فیملی کے ساتھ سفر کرنے کا ارادہ کرے اور اکیلا فیصلہ کرے کہ فلاں جگہ،فلاں دن جائیں گے اور اتنے دن رکیں گے.لیکن اگر فیملی اس شخص کی مرضی کے برخلاف ایک دو دن کم یا زیادہ رکنا چاہے تو انکی بات نہ مانے اور کہے کہ ویسے ہی ہوگا جیسا میں نے کہا ہے.اس رویے کی مذمت کی گئی ہے ۔

 

 

 

عہد زندگی ، رھبر معظم

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے