اتحاد ہی مسلمانوں کی کامیابی کا ضامن از امام خمینی

اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت

میرا خطاب سنی بھائیوں سے ہے کہ ہم پہلے بھی کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہم رہبر عظیم الشان امام خمینیؒ کی قیادت پر فخر کرتے ہیں۔ وہ عظیم انسان جس نے آج مسلمانوں کی کامیابی کا ذریعہ اتحاد بین المسلمین کو قرار دیا اور وہ لوگ جو سنی شیعہ اختلافات کو ہوا دیتے ہیں ان کو امام امت نہ سنی سمجھتے ہیں نہ شیعہ بلکہ ان کو غیر کا ایجنٹ سمجھتے ہیں، ہم بھی انہی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

شیعہ سنی اپنے مشترک دشمن کا مقابلہ کریں

ہماری سنیوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، وہ ہمارے بھائی ہیں ہم دونوں کا دشمن امریکہ روس اسرائیل اور بھارت ہیں۔ ہم صرف زبان سے نہیں کہتے کہ سنی شیعہ بھائی بھائی ہیں بلکہ ہم عمل میں بھی خود اس پر عمل پیرا ہیں، ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ یوم سیاہ اور ہمارے یہ اجتماعات (نفاذ فقہ جعفریہ کا مطالبہ) اپنے سنی بھائیوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم دونوں کا دشمن مشترک ہے اور ہم دونو مل کر اس مشترک دشمن سے مقابلہ کریں گے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹ جائیں۔ نہیں نہیں، یہ قومی سطح پر ہمارا مطالبہ ہے۔ نفاذ فقہ جعفریہ ہمارا مطالبہ ہے، ہمارے دوسرے حقوق ہیں، ان کے باوجود ہم اپنے سنی بھائیوں سے اتحاد کے خواہاں ہیں، مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد۔ یعنی سنی سنی بن کر اور شیعہ شیعہ بن کر اپنے اپنے مسلک اور فقہوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہوجائیں۔

یہاں آپ بھائیوں کی خدمت میں عرض کروں گا کہ ایک ایسا شخص جو خود خواہی اور خود پسندی میں غرق ہے اور وہ یہ سوچتا ہے کہ صرف میں ہوں، اسلام اس فکر کو رد کرتا ہے، ایک مسلمان کو خود خواہی اور خود پسندی کے مرض میں مبتلاء نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو ہوا کودیکھ کر چلتا ہے، جس طرف ہوا چلے وہ اس کا ہم رنگ بن کر اسی طرف چلتا ہے، اسی طرح آگے بڑھتا ہے یعنی ہم رنگ جماعت بنتا ہے۔

اس قسم کا انسان بھی مسلمان نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کہتا ہے کہ لوگ جس طرف جا رہے ہیں مجھے بھی اسی طرف جانا چاہئے، ہو سکتا ہے لوگ ہلاکت کی طرف جا رہے ہوں۔

تیسری قسم کا آدمی وہ ہے جو ایک معاشرے میں رہتے ہوئے اس معاشرے کے ہم آہنگ نہ ہو بلکہ اس کے دل میں ہر وقت رضایت خدا ہو، رضایت اسلام ہو، رضایت رسولؐ ہو، رضایت امام زمانؑ ہو۔ وہ ہر وقت سوچتا ہے کہ اس وقت میرا شرعی وظیفہ کیا ہے؟ میری شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ اس مجھے قرآن کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ امام زمانؑ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ امام باڑے میں جاتا ہے کہیں بھی جاتا ہے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا، رسولؐ اور امام زمانؑ اسے دیکھتے ہیں۔ ہم اور آپ کو ایسا ہونا چاہئے۔

کتاب: آداب کارواں، ص ۲۳۲ الی ۲۳۳، ناشر العارف اکیڈمی پاکستان؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے