انفرادی اور اجتماعی فرائض میں توازن ضروری ہے از شھید حسینی

انسان کامل

انسان کامل وہ ہےجو ان تمام اقدار، استعداد اور معنوی و روحانی معارف کو بروئے کار لائے جو خدا نے اسے عطا کئے ہیں، عبادت کے وقت عبادت کی طرف دوڑے، اجتماعی مسائل کو بھی نہ بھولے اور جو ذمہ داری بھی اس کے اوپر آجائے اس کو بطور احسن انجام دے۔

ہم بعض اوقات دیکھتے ہیں ہمارے کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ صرف جامعہ سازی ہو، ایک بہترین معاشرہ ہو۔وہ اجتماعی مسائل میں آگے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں جگہ یہ ہوگیا اور فلاں جگہ وہ ہوگیا، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

اب آپ اسی نوجوان کی نجی اور خصوصی زندگی میں دیکھیں اور اگر غور کریں تو وہ عبادات کو انجام نہیں دیتا، نماز کو اہمیت نہیں دیتا، روزہ اگر دل میں آیا تو رکھ لیا۔ ان کے مقابلے میں کچھ نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو صرف اور صرف عبادات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، وہ صرف چاہتے ہیں کہ مسجد میں نماز پڑھیں۔

معاشرے میں کیا ہو رہا ہے؟ فحاشی کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ ملک میں کیا ہو رہا ہے، استعمار کی ہمارے ملک کے خلاف کیا کیا سازشیں ہیں؟ ان باتوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ چھوڑو بھائی ان سے ہمارا کیا کام؟ یہ بھی غلط ہے۔

مومن واقعی

مومن واقعی وہ ہے جو اجتماعی ذمہ داریوں کو بھی نہ بھولے اور انفرادی واجبات کو بھی بطور احسن بجا لائے۔ اسلام ہمیں یہی حکم دیتا ہے اور آپ انبیاؑء کو دیکھیں کہ وہ کس طریقے سے انفرادی طور پر انفرادی عبادات بجا لاتے تھے اور معاشرے میں بھی بیچارے مظلوموں اور محروموں کی خاطر شب و روز کوشش کرتے تھے تا کہ لوگوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف لائیں۔

آپ ائمہ اطہارؑ کی سیرت کا مطالعہ کریں، وہ جہاں عبادات میں مشغول رہتے تھے وہاں وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو فراموش نہیں کرتے تھے۔ سید الشہداؑء کے لئے اگر اجتماعی ذمہ داری نہ ہوتی تو انفرادی طور پران کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

اگر امام حسینؑ کو اس بات سے کوئی سروکار نہ ہوتا کہ حکومت کیا کر رہی ہے اور کس طریقے سے وہ لوگوں کا استحصال کر رہی ہے اور اسلام کے خلاف سازشیں تیار کر رہی ہے، اگر امامؑ ان باتوں پر اعتراض نہ کرتے صرف اور صرف اپنی انفرادی عبادات بجا لاتے تو حکومت نہ صرف یہ کہ ان کے لئے کوئی مزاحمت ایجاد نہ کرتی بلکہ جا کر ان کے ہاتھ میں پیسے بھی رکھتے، خمس بھی دیتے اور ان کے ہاتھ بھی چومتے لیکن مسئلہ اجتماعی ذمہ داریوں کا تھا، سید الشہداؑء کی خصوصی اور ذاتی عبادات کا مسئلہ نہیں تھا۔

اجتماعی فرائض

سید الشہداؑء (امام حسینؑ) اس بات کی طرف متوجہ تھے کہ اگر میں اس حکومت کے چہرے پر پڑے ہوئے اسلام کے نقاب کو نہیں ہٹاوں گا تو یہ حکومت اسلام کے نام پر اسلام کی اساس اور بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی لہذا سید الشہداؑء نے سب کچھ چھوڑ کر اسلام کی خاطر اور اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے کربلا کو برپا کیا۔

کتاب: آداب کارواں، ص ۲۷۸ الی۲۸۰ ، ناشر العارف اکیڈمی پاکستان؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے