بعثت انبیاء کے دو بنیادی اہداف از شھید مطہری

انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے کا اصل مقصد کیا تھا؟ دوسرے الفاظ میں رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے کی غایت نہائی کیا تھی؟ پیغمبروں کا حرف آخر کیا ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اصل ہدف و مقصد لوگوں کو ہدایت لوگوں کی سعادت و خوش بختی لوگوں کی نجات اور لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء لوگوں کو راہ ر است کی طرف ہدایت کرنے اور لوگوں کے لئے خوش بختی اور نجات کا سامان مہیا کرنے اور لوگوں کی خیر و صلاح اور فلاح و بہبود کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ اس وقت اس مسئلے پر گفتگو کرنا مقصود نہیں بلکہ بحث اس میں ہے کہ یہ راہ راست کس انتہائی منزل مقصود پر ختم ہوتی ہے؟

بعثت انبیاء کا مقصد توحید عملی و اجتماعی کی طرف دعوت

مکتب انبیاء علیہم السلام کی نظر میں لوگوں کی سعادت و بھلائی کا کیا مطلب ہے؟ یہ مکتب کون سی قیود و مشکلات مشخص کرتا ہے جن سے لوگوں کو نجات دینا چاہتا ہے؟ یہ مکتب خیر و صلاح اور فلاح و بہبود کو کس چیز میں سمجھتا ہے؟قرآن نے ان تمام مطالب و معانی کی طرف اشارہ یا تصریح کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے دو مفاہیم و معانی کا بھی ذکر کیا ہے جن سے اصلی مقصد کی طرف رسائی ہوتی ہے یعنی پیغمبروں کی ساری تعلیمات انہی دو باتوں کی تمہید ہے۔ وہ ہیں ایک خدا کو پہچاننا اور اس کی قربت حاصل کرنا اور دوسری انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا اور قائم رکھنا۔


قرآن کریم ایک طرف کہتا ہے:
یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھداً و نذیراً و داعیاً للّٰہ باذنہ و سراجاً منیراً (احزاب ۴۵ ۴۶)
اے پیغمبر! ہم نے تم کو گواہ خوشخبری دینے والا ڈرانے والا اللہ کی طرف سے اس کی اجازت سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔
اس آیت میں جن پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف بلانا ہی وہ چیز ہے جسے اصل ہدف قرار دیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف تمام پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:

توحید عملی و اجتماعی کی طرف بلانا
ولقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط
ہم نے اپنے پیغمبروں کو روشن دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور معیار و میزان کو نازل کیا تاکہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھ سکیں۔ اس آیت میں واضح طور پر عدل و انصاف قائم کرنے کو انبیاء علیہم السلام کی رسالت و بعثت کا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کی طرف بلانے، اسے پہچاننے اور اس کے قریب ہونے سے مراد توحید نظری اور توحید عملی و فردی کی طرف دعوت دینا ہے جب کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے مراد توحید عملی و اجتماعی کی طرف بلانا ہے۔

کتاب: وحی اور نبوت، تالیف شہید مرتضی مطہری سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے