تقوی کی معاشرتی ضرورت شہید حیسنیؒ کی نظر میں

انسان کو درپیش تمام مشکلات کے حل کا جو نسخہ مولا (علیؑ) نے پیش کیا ہے وہ تقوی ہے، دنیا و آخرت اور قبر میں درپیش حالات پر تقوی اپنے گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ دنیا میں معاشرے پر بھی تقوی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔

تقوی کی غیر معمولی اہمیت

کسی چیز کی قیمت کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ چیز موجود نہ ہو اور کوئی دوسری چیز بھی اس کی جگہ نہ لے سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں تقوی ختم ہوجائے تو پھر اس کی جگہ نہ حکومت لے سکتی ہے نہ ہی علم و سائنس اور نہ ہی دیگر مختلف قوانین کے بس میں ہے کہ وہ اس خلاء کو پر کر سکیں۔ کوئی چیز بھی تقوی کا نعم البدل نہیں۔ نہ زر، نہ زور، نہ قوانین اور نہ ہی حکومت حتی کہ علم جیسی بڑی چیز بھی تقوی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کے ارکان میں سے ایک تقوی ہے اور اگر معاشرے کے ارکان میں سے تقوی کو نکال دیں تو معاشرہ بد بخت اور تباہ و برباد ہوجائے گا۔

اب آپ اندازہ لگائیں کہ ہم چاہتے ہیں اپنی مشکلات کا علاج کریں۔ ہماری اجتماعی مشکلات کا حل حکومت کی نظر میں یہ ہے کہ قوانین بنا دے۔ لیکن ہم آئے دن یہ دیکھتے ہیں کہ ٹریفک کے قوانین انتہائی سخت ہونے کے باوجود زیادہ حادثات ہو رہے ہیں۔

اسی طرح ایک اور بیماری جو ہمارے اسلامی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے وہ ہے رشوت۔ انسان کا جائز اور معمولی سا کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ حکومت والے اپنی تقریروں میں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم رشوت اور اس طرح کے دیگر کاموں کا خاتمہ کر دیں گے۔

الیکشن کے دوران مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ بھی یہی موقع آجاتا ہے اور وہ اپنی تقریروں میں یہی حوالہ دیتے ہیں کہ اگر ہم بر سر اقتدار آگئے تو ہم رشوت ستانی ختم کریں دیں گے۔

یہ کس طرح ختم کر سکتے ہیں؟ حکومت کے نزدیک سب بڑا حل یہ کہ قانون کو سخت کر دیا جائے لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر لوگوں کے دلوں میں ایسی کوئی چیز نہ ہو جو اس حد (قانون) کا احترام کرنے پر لوگوں کو مجبور کرے تو کیا صرف قانون بنانے سے ہماری یہ مشکلات حل ہو سکتی ہیں؟ یقین جانیں کہ حل نہیں ہو سکتیں۔

اجتماعی مشکلات کا واحد علاج تقوی ہے

اگر ہم ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے معاشرے میں تقوی کو زندہ کرنا ہے۔ جب تک ہمارے دلوں میں مخفی پولیس قائم نہ ہوجائے جو ہمیں اس جگہ پر جہاں پولیس نہ ہو، حکومت نہ ہو اس وقت یہ ہمیں برے کام سے روک سکے۔ جب تک یہ مخفی پولیس کہ جس کا نام آپ ایمان یا تقوی رکھتے ہیں ہمارے دلوں میں پیدا نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی اور قانون ان مشکلات کا درمان نہیں ہو سکتا۔

ہمیں اگر واقعاً ان تمام مشکلات کا حل تلاش کرنا ہے تو پھر تقوی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

کتاب: پیام نور،ص ۲۲۴ الی ۲۲۷، ناشر؛ العارف اکیڈمی پاکستان؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے