غزہ و لبنان جنگ اور نیٹن یاہو کے وارنٹِ گرفتاری از رہبر انقلاب
دین اور شریعتوں کےبارے میں قرآن نظریہ از شھید مطہری
علم دین سے تعلق رکھنے والے علماء اور مذاہب کی تاریخ لکھنے والے عام طور سے ادیان کے بارے میں بحث کرتے ہوئے دین ابراہیمؑ، دین یہود، دین مسیحی اور دین اسلام کی بات کرتے ہیں گویا ہر ایک صاحب شریعت پیغمبر کو ایک علیحدہ دین لانے والا سمجھتے ہیں عام لوگوں کے درمیان بھی یہی اصطلاح رائج ہے۔ لیکن
قرآن مجید کی نظر میں اللہ کا دین ایک ہی ہے!
قرآن مجید اس بارے میں ایک خاص اصطلاح اور طرز بیان رکھتا ہے جس کا سرچشمہ قرآن ہی کا خاص نظریہ ہے قرآن مجید کی نظر میں حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء ﷺ تک، اللہ کا دین ایک ہی ہے۔ تمام پیغمبر چاہے وہ صاحب شریعت ہوں یا ان کے علاوہ سبھی ایک مکتب کے داعی تھے اور ایک دین کے مبلغ تھے۔
مختلف شریعتوں کے وجود کا راز
مکتب انبیاءعلیہم السلام کے اصول جنہیں دین کہا جاتا ہے ایک ہیں البتہ ایک تو سب کے درمیان فرعی مسائل میں کچھ اختلاف ضروری ہے جو عصری تقاضوں ماحول اور لوگوں کی خصوصیات کے اعتبار سے نظر آتا ہے لیکن ان تمام مختلف شکلوں کی حقیقت ایک ہی ہے سب ایک ہی مقصد و ہدف کی طرف رواں ہیں۔ دوسرا فرق تعلیمات کی علمی سطح پر نظر آتا ہے کیوں کہ جیسے جیسے انبیاء۱ آتے رہے اور شریعتیں لاتے رہے اور اپنی مقدس تعلیمات سے بندگان خدا کو فائدہ پہنچاتے رہے ویسے ویسے انسانی معاشرہ علوم و معارف میں ترقی و کمال کی منزلیں طے کرتا رہا اور تدریجاً آگے بڑھتا رہا، اسی بناء پر ہر بعد میں آنے والے صاحب شریعت پیغمبر نے اپنی تعلیمات کو اس سطح سے بلند رکھا جہاں تک اس سے قبل والے پیغمبر نے پہنچایا تھا۔
مگر حقیقت میں سب کا موضوع ایک تھا لیکن مبداء و معاد اور دنیا کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور گذشتہ پیغمبروں کی تعلیمات کے درمیان علمی سطح کے اعتبار سے زمین سے آسمان تک فرق نظر آئے گا۔ دوسرے الفاظ میں ان انبیاء کی تعلیمات سے فائدہ حاصل کرنے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے تھا جسے ان الٰہی اساتذہ نے یکے بعد دیگرے آہستہ آہستہ پہلے درجے سے ترقی دیتے ہوئے آخر میں بالائی درجے تک پہنچایا ہے۔
یہ دنیا کا تدریجی ارتقاء ہے نہ کہ ادیان کا اختلاف۔ قرآن مجید نے کہیں بھی لفظ دین کو جمع (ادیان) کی صورت میں استعمال نہیں کیا۔ قرآن مجید میں جس چیز کا وجود تھا وہ دین تھا نہ کہ ادیان۔
پیغمبروں اور فلسفیوں کے درمیان ایک بڑا فرق!
ایک واضح فرق پیغمبروں اور بڑے بڑے فلسفیوں اور ماہرین کے درمیان یہ بھی ہے کہ فلاسفہ میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص نظریہ اور مکتب فکر تھا لیکن پیغمبران خدا ہمیشہ ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرنے والے رہے ہیں انہوں نے کبھی ایک دوسرے کی نفی نہیں کی۔ پیغمبروں میں سے اگر کوئی کسی دوسرے پیغمبر کے زمانے اور ماحول میں ہوتا تو اسی کے قوانین اور احکام کی مانند قوانین لاتا۔
قرآن اس بات کو صراحت سے بیان کرتا ہے کہ (از آدم۱ تا خاتم) تمام انبیاء۱ کا ایک سلسلہ تھا اور سب ایک آسمانی سلسلے میں منسلک تھے گذشتہ انبیاء۱ اپنے بعد آنے والے پیغمبروں کی بشارت دیتے رہے اور بعد میں آنے والے انبیاء۱ گذشتہ انبیاء۱ کی تصدیق و تائید کرتے رہے نیز قرآن کریم اس امر کی بھی تصریح کرتا ہے کہ تمام انبیاء۱ سے اس بات کا سخت عہد و پیمان لیا گیا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کے مبشر و مصدق ہوں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اے میرے رسول) اس وقت کو یاد کرو جب خداوند عالم نے تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں گا پھر تمہارے پاس ایک پیغمبر تمہاری رسالت کی تصدیق کرتے ہوئے آئے گا تو تم سب اس کے اوپر ضرور ایمان لانا اور اس کی ضرور مدد کرنا پھر (خدا نے فرمایا) کہ کیا تم نے اقرار کیا اور کیا تم نے میرا عہد اپنے ذمے لے لیا؟ (تو ان سب نے) کہا: ہم نے اقرار کیا (پھر خدا نے) فرمایا: ”تم گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔“(آل عمران آیت ۸۱)
دین کی حقیقت کا بہترین عنوان لفظ اسلام ہے
قرآن کریم نے کہ جو دین خدا کو آدمؑ سے خاتمؐ تک ایک ہی جاری رہنے والے سلسلے کی حیثیت سے پہچنواتا ہے نہ کہ چند کڑیوں کے عنوان سے، اس سلسلے کا صرف ایک نام رکھا ہے اور وہ ہے اسلام۔ ہمارے کہنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ دین خدا ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے اس نام سے پکارا جاتا رہا ہے یا یہی نام لوگوں کے درمیان مشہور و معروف رہا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ دین کی حقیقت ایک ایسی ماہیت رکھتی ہے جس کا بہترین معرف اور عنوان لفظ اسلام ہے۔
قرآن کہتا ہے:ان الدین عنداللّٰہ الاسلام (آل عمران آیت ۱۹) یا دوسری جگہ کہتا ہے: ماکان ابراھیم یہودیاً و لانصرانیا و لکن کان حنیفاً مسلماً (آل عمران آیت ۶۷) ’’ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ حق کی تلاش کرنے والے اور مسلم تھے۔“
کتاب: وحی اور نبوت، تالیف شہید مرتضی مطہری سے اقتباس