شادی کی سادہ تقریبات، معاشرے کی بقاء کیلئے اہم مسئلہ! از رہبر انقلاب
عصمت یعنی ایمان کا اعلی مرتبہ از شہید مطہری
آپ نے سنا ہوا ہے کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ انبیاء اور ائمہ معصوم ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ اس کا جواب دیں گے کہ وہ کبھی کسی بھی صورت میں گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام گناہ کیوں نہیں کرتے؟ تو ممکن ہے آپ اس کا جواب دو طرح سے دیں۔ ایک یہ کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اس وجہ سے گناہ نہیں کرتے کہ خدا وند عالم نے انہیں بالجبر گناہ اور معصیت سے روکا ہوا ہے۔ یعنی جب کبھی وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں تو خدا رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے اور ان کا راستہ روک دیتا ہے۔
اگر عصمت کے معنی یہ ہیں تو یہ (انبیاء اور ائمہ کے لئے) کوئی فضیلت اور کمال نہیں۔ یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔ انبیاء اور ائمہ کے معصوم ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں اور خدا ان کے مانع ہوجاتا ہے۔
پس پھر حقیقت کیا ہے؟ عصمت کے معنی ایمان کے اعلی درجے پر فائز ہونا ہے۔ جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا ہی انسان کو خدا زیاد یاد رہے گا۔
خدا کی یاد اور ایمان کے درجے
بعض لوگوں کو کبھی کبھی خدا یاد آتا ہے، ایک لمحے کے لئے ان کے ذہن میں آتا ہے اس کے بعد وہ اسے ایسے بھلا دیتے ہیں جیسے سرے سے کسی خدا وجود ہی نہیں۔ لیکن کچھ افراد کہ جن کا ایمان (مذکورہ بالا لوگوں سے کچھ) زیادہ ہوتا ہے، کبھی غفلت میں ہوتے ہیں کبھی بیدار، جب غافل ہوتے ہیں تو ان گناہ صادر ہوتے ہیں لیکن جب بیدار ہوتے ہیں تو اس بیداری کے نتیجے میں ان سے گناہ صادر نہیں ہوتے، کیونکہ جب وہ خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان سے گناہ کے صدور کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
عصمت یعنی ایمان کے اعلی درجے پر فائز ہونا
جب انسان کی روح میں سچا ایمان موجود ہو اور وہ بیدار ہو تو گناہوں میں مبتلاء نہیں ہوتا۔ اب اگر انسان کا ایمان کمال کی حدوں کو چھو لے، یہاں تک کہ وہ خدا کو ہمیشہ حاضر و ناظر سمجھنے لگے۔ یعنی خدا ہمیشہ اس کے دل میں موجود ہو تو ایسی صورت میں وہ کبھی بھی غافل نہیں ہوتا، ہر عمل کی انجام دہی کے دوران خدا کی یاد اس کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔
ایک مثال عرض کرتا ہوں، پوری زندگی میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم میں سے کوئی ارادتاً خود کو آگ میں جھونک دیں، البتہ ہم خود کشی کرنا چاہیں تو دوسری بات ہے۔ اس لئے کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اگر آگ کے بڑھکتے شعلوں میں گر جائیں گے تو یقیناً زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
ہم قطعی طور پر اس بات کا علم رکھتے ہیں اور یہ علم ہمارے ذہن میں ہے اور ہم ایک لمحے کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہوتے۔ لہذا ہم اپنے آپ کو آگ میں جھونکنے کے لحاظ سے معصوم ہیں۔ جتنا ہم آگ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیں اتنا ہی اولیائے خدا گناہ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیں، لہذا وہ معصوم ہوتے ہیں (کسی گناہ کے قریب نہیں جاتے)
کتاب: عبادت و نماز، ص ۴۳ الی ۴۶ ، از شہید مطہری؛ سے اقتباس