عظمتِ امام حسین کی تجلّی از آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای

 
سوّم شعبان، با عظمت دن!

سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی ولادت کا دِن ایک باعظمت دِن ہے۔ شعبان کے تیسرے مہینے کی عظمت کو امام حسین علیہ السلام کی عظمت کی ایک تجلی کے عنوان سے سمجھنا چاہیے، اور شمار کرنا چاہیے، ایک عظیم دِن ہے۔ اِس دِن ایک ایسی شخصیت کی ولادت ہوئی کہ اسلام کی تقدیر، اُس پر، اُس کے عمل پر، اُس کے قیام پر ، اُس کی قربانی پر اور اُس کے اخلاص سے وابستہ تھی۔

سورج کی مانند

حسین بن علیؑ دنیا کی مقدس ہستیوں کے درمیان سورج کی مانند چمک رہے ہیں۔ انبیاء، اولیاء، آئمہ، شھداء اور صالحین کو اگر مدنظر رکھیں، اگر یہ چاند اور ستارے ہیں تو امام حسینؑ سورج ہیں۔

بے نظیر قربانی

آپ حضرت نے تاریخِ بشریت میں ایک ایسا عمل انجام دیا کہ جس کی مثال اور شبیہ نہیں ملتی، یہ مثال تاریخ کو پیش کی اور بشریت کے سامنے رکھی کہ جو ہرگز فراموش نہیں ہوگی، نمونہ عمل ہے۔ ہدف کے لیے قربانی، اُس شکل میں، اُس معیار میں، قربانی اپنی جان قربان کرنے کے معنی میں، اپنے عزیزیوں کی جان پیش کرنے کے معنی میں، اپنے اہل بیتؑ کی ناموس کی اسیری کے معنوں میں، اُس حالت میں، اُس سختی و دشواری کے ساتھ، اِس سنگین واقعے پر صبر کرنا تاکہ اسلام بچ جائے، تاکہ ظلم کی مخالفت، ایک اصول کے عنوان سے تاریخِ اسلام میں اور تاریخِ بشریت میں یادگار رہ جائے، یہ وہ چیز ہے کہ جس کہ کوئی اور مثال پیدا نہیں کی جاسکتی ہے۔

پوری زندگی ایک درس۔۔۔

امام حسین علیہ السلام کی زندگی کی پوری تاریخ آپ علیہ السلام کی 52 سالہ زندگی سب کی سب درس ہے۔ آپ کے بچپن کا زمانہ درس ہے، آپؑ کی جوانی کا زمانہ درس ہے، امام حسن علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں آپ کے کردار میں درس پایا جاتا ہے، امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد کے آپ کے کردار میں درس پایا جاتا ہے۔

حسین منی و انا من حسینؑ

امام حسین کی ولادت سے پہلے ، جابر بن عبد اللہ نے نبی کریمؐ کے ساتھ تھے اور ان کے ہمراہ جہاد بھی کیا ہے۔ انہوں نے حسین ابن علی علیہ السلام کی ولادت اور نشوونما کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جابر بن عبد اللہ نے بہت بار دیکھا کہ حضور نے حسین بن علیؑ کو گلے لگایا ، ان کی آنکھوں کو چوما ، انکے چہرہ کو بوسہ دیا، پیغمبر نے اپنے ہی ہاتھوں سے حسین بن علی کے دہان مبارک میں نوالا ڈالا اور انہیں خود پانی پلایا۔

 
راہِ حسینی، راهِ عزت و سربلندی!
ایسا نہیں ہے کہ اب جو کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے تو لازمی طور پر اُس کا نتیجہ ظاہری طور پر، دنیاوی لحاظ سے ناکامی ہی ہے۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے، آپ علیہ السلام نے اِس درس کو بشریت کے سامنے رکھ دیا ہے، اور مخاطب ہیں اگر دنیا چاہتے ہو تو بھی اور اگر عزت چاہتے ہو تو بھی راستہ یہ ہے، اِس راستے پر چلنا پڑے گا۔  

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے