غزہ و لبنان جنگ اور نیٹن یاہو کے وارنٹِ گرفتاری از رہبر انقلاب
نرم جنگ میں دشمن کے اہداف اور نوجوانوں کی ذمہ داری! از آیت اللہ الؑظمیٰ خامنہ ای
نرم جنگ میں دشمن کے اہداف
ہمارے خیال میں نرم جنگ (سافٹ وار) میں دشمن کے دو اہداف ہیں۔ کبھی واضح فوجی اور پر تشدد جنگیں ہوتی ہیں جن کے اپنے طور طریقے ہیں، لیکن نرم جنگ کا علاج مشکل سے ہوتا ہے اور ایک پہلو سے وہ عسکری تصادم سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
تو دشمن نرم جنگ میں دو طرح کے کام کرتا ہے:
۱) ایک یہ ہے کہ حق اور صبر کی باہمی نصیحت کی اس زنجیر کو کاٹ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
۲) دوسرے یہ کہ حقائق کو بالکل برعکس دکھانے کی کوشش کرتا ہے، اس سلسلے میں ان کا وسیع پروپیگنڈا بھی ہے تاکہ جھوٹ کا سہارا لیکر دنیا کے حقائق کو آسانی سے برعکس اور الٹا دکھائيں۔
پہلا ہدف، باہمی نصیحت کے عمل کو ختم کرنا
یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ وہ مومنین کے درمیان حق اور صبر کی تلقین کی زنجیر کو کاٹ دیں اور باہمی نصیحت کے عمل کو روک دیں۔ یہ بات بہت خطرناک ہے کہ وہ ایسا کچھ کریں کہ مومنین ایک دوسرے کو نصیحت نہ کریں، ایک دوسرے کی حفاظت نہ کریں، ایک دوسرے کو امید نہ دلائیں، اگر اس عمل کو روک دیا جائے اور معاشرے میں باہمی نصیحت کی زنجیر کو کاٹ دیا جائے تو بہت خطرناک ہوگا۔ یہ اس بات کا سبب بنے گا کہ انسان تنہائي کا احساس کرے، ناامیدی محسوس کرے، ارادے کمزور ہو جائیں، امیدیں ماند پڑ جائيں، اقدام کرنے کی ہمت ختم ہو جائے۔ جب باہمی نصیحت نہ ہو تو یہ ساری باتیں ہوتی ہیں۔ جب ایسا ہو جائے، امیدیں ماند پڑ جائيں، ہمت ختم ہو جائيں اور ارادے کمزور ہو جائیں تو پھر فطری طور پر اعلی اہداف تدریجی طور پر نظر سے دور ہونے لگتے ہیں، ان تک رسائي ناممکن نظر آنے لگتی ہے اور وہ طاق نسیاں کی زینت بن جاتے ہیں۔
نوجوان، نرم جنگ کے سپاہی اور انکی ذمہ داریاں
نرم جنگ کے ہمارے ان سپاہیوں کو ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ میں نے کبھی کہا تھا کہ ہمارے نوجوان، ہماری نرم جنگ کے سپاہی ہے۔ نوجوانوں کو ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے اور امید پیدا کرنی چاہیے۔ انھیں استقامت کی نصیحت کرنی چاہیے، کاہلی نہ کرنے کی نصیحت کرنی چاہیے، نہ تھکنے کی تلقین کرنی چاہیے، یہ وہ کام ہیں جو نوجوانوں کے ذمے ہیں جنھیں ہم نے نرم جنگ کا سپاہی کہا ہے۔
آج سائبر اسپیس، اس کام کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔ دشمن، سائبر اسپیس سے کسی اور طرح کا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن آپ عزیز نوجوان اس سے اس طرح استفادہ کیجیے: سائبر اسپیس سے امید پیدا کرنے کے لیے فائدہ اٹھائيے، صبر کی تلقین کرنے کے لیے، حق کی نصیحت کرنے کے لیے، بصیرت پیدا کرنے کے لیے، نہ تھکنے، کاہلی نہ کرنے اور بے کار نہ بیٹھنے وغیرہ کی نصیحت کرنے کے لیے۔ یہ بات تو دشمن کے پہلے کام کے سلسلے میں تھی جو باہمی نصیحت اور ایک دوسرے کی حفاظت کی زنجیر کو کاٹنے سے عبارت ہے۔
دوسرا ہدف، حقائق کو الٹا کر کے دکھانا
ان کا دوسرا کام، ہم نے بتایا کہ حقیقت کو الٹا کرکے دکھانا ہے۔ حقیقت کے سلسلے میں جھوٹ بولنا ہے۔ یہ جھوٹ وہ اتنے ٹھوس طریقے سے اور قطعیت سے بولتے ہیں کہ جو بھی سنتا ہے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ لوگ پورے اطمینان سے اور ٹھوس طریقے سے حقیقت کو ایک سو اسّی ڈگری الٹا کرکے دکھاتے ہیں۔
یمن جنگ جھوٹے پروپگنڈے کا ایک نمونہ
فرض کیجیے کہ امریکا کا عرب اتحادی چھے سال سے یمن کے مظلوم عوام پر ان کے گھروں میں، سڑکوں پر، اسپتالوں میں اور اسکولوں میں بمباری کر رہا ہے، اس نے ان کا معاشی محاصرہ کر رکھا ہے اور غذا نہیں پہنچنے دے رہا ہے، دوائیں نہیں پہنچنے دے رہا ہے اور تیل نہیں پہنچنے دے رہا ہے۔ چھے سال سے یہ ہو رہا ہے اور یہ خود امریکی حکومت کے گرین سگنل سے ہوا ہے۔اس وقت بھی ڈیموکریٹ حکومت بر سر اقتدار تھی۔ اس نے گرین سگنل دیا اور افسوس کہ یہ بے رحم، سنگدل اور ظالم عرب حکومت، یمن کے عوام کے ساتھ اس طرح پیش آ رہی ہے۔ حقیقت میں معاملہ یہ ہے۔ اب یمنیوں نے، جو غیر معمولی صلاحیت کے مالک ہیں، یمن کے لوگ بہت بااستعداد ہیں، اپنی بعض صلاحیتوں سے استفادہ کرکے اپنے لیے دفاعی وسائل پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، یا تو فراہم کر لیے ہیں یا خود ہی تیار کر لیے ہیں اور چھے سال سے جاری ان بمباریوں کا جواب دے رہے ہیں، جیسے ہی یمنیوں کی طرف سے کچھ کیا جاتا ہے، ان کے پروپیگنڈوں کی چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں کہ جناب حملہ ہو گیا، جناب کسی کو مار دیا گيا! وہ سب بولنے لگتے ہیں، اقوام متحدہ بھی بولنے لگتی ہے۔
اقوام متحدہ کا منافقانہ کردار
واقعی اس معاملے میں اقوام متحدہ کے کام کی قباحت، امریکا سے بھی زیادہ ہے۔ امریکا تو ایک ظالم سامراجی حکومت ہے، لیکن اقوام متحدہ یہ کیوں کرتی ہے؟ چھے سال سے جاری بمباری کی وجہ سے اس حکومت کی مذمت نہیں کی جاتی لیکن یمنیوں کی اس وجہ سے ملامت کی جاتی ہے کہ انھوں نے کبھی کبھی اپنا دفاع کیا ہے اور یہ دفاع مؤثر ثابت ہوا۔ سبھی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور حملہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ جھوٹ کا ایک نمونہ ہے۔
حوالہ: یوم مبعث ۲۰۲۱ کے خطاب سے انتخاب اور تلخیص