پردے کا اسلامی تصور شہید مطہری کی نگاہ میں

ستر یا پردے کے مسئلے میں بات یہ نہیں ہے کہ عورت ستر کے ساتھ بھرے مجمع میں آئے یا عریاں؟

اسلام مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط کی نفی کرتا ہے

بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کیا مرد کی عورت سے لذت اندوزی بلا عوض اور عام ہونی چاہئے؟ کیا مرد کو یہ حق ہے کہ وہ عورت سے ہر محفل میں باستثنائے زنا زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرے؟ اسلام کہ جس کی نظر مسائل کی اصلیت پر ہے جواب دیتا ہے: نہیں! ایسا نہیں ہے۔ مرد صرف گھریلو ماحول اور مضبوط عہد و پیمان کے ساتھ از دواجی قانون کے دائرے میں عورت کو بیوی کی حیثیت سے اپنے تصرف میں لا سکتا ہے لیکن عام اجتماعات میں کسی نامحرم عورت سے قطعاً استفادہ نہیں کر سکتا۔نیز عورت کے لئے بھی یہی پابندی ہے۔

یہ درست ہے کہ مسئلہ کی ظاہری صورت یہ ہے کہ عورت کیا کرے؟ وہ ستر کے ساتھ باہر آئے یا عریاں؟ یعنی جو چیز عنوان مسئلہ قرار پاتی ہے وہ عورت ہے اور

مغرب کی خواتین کے پردے سے متعلق مکارانہ ہمدردی

کبھی کبھی اس مسئلہ کو بڑے ہمدردانہ انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ کیا محکومیت، اسیری اور پردہ نشینی سے بہتر نہیں ہے کہ عورت آزاد فضامیں سانس لے؟ لیکن باطن میں کچھ اور بات ہے اور وہ یہ ہے کہ مرد کو عورت سے زنا کے علاوہ جنسی استفادے میں مطلق آزادی ہونی چاہئے۔ یعنی اس مسئلہ میں جو فائدہ مرد کو پہنچ رہا ہے وہ عورت کو نہیں۔ پس اصل مسئلہ جنسی خواہش کو شرعی حدودمیں رکھنے یا جنسی لذت کے حصول کو پورے معاشرے میں عام کرنے کا ہے۔ دین اسلام پہلی روش کا حامی ہے۔

 

ازدواجی تعلق کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر

اسلام کے نقطہ نظر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے عمل میں جنسی لذت کے حصول کی محدودیت نفسیاتی اعتبار سے ایک صاف ستھرے ماحول کو پیش کرتی ہے۔ باعتبار خاندان، خاندان کے افراد کے تعلقات میں استحکام اور میاں بیوی میں مکمل ہم آہنگی پیدا کرتی ہے، باعتبار اجتماع لوگوں کی کارکردگی کی اہلیت اور توانائی کا تحفظ کرتی ہے اور مرد کے مقابل عورت کی منزلت کو بڑھاتی ہے۔

 

 

کتاب: فلسفہ حجاب،ص ۴۹ الی ۵۰، شہید مطہری؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے