پیغمبرانہ خود شناسی از شھید مطہری

پیغمبر کی خود شناسی کا تعلق خدا سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی

یہ ”خود شناسی“ باقی تمام اقسام ”خود شناسی“ سے مختلف ہے۔ پیغمبر کی خود شناسی کا تعلق خدا سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی وہ درد خدا بھی رکھتا ہے اور درد مخلوق بھی لیکن نہ ثنویت اور دوگانگی کی شکل میں نہ دو قطبوں کی صورت میں نہ ہی قبلوں کی شکل میں اور نہ یہ کہ اس کا آدھا دل خدا کی طرف ہوتا ہے اور آدھا مخلوق کی طرف یا اس کی ایک آنکھ خدا کی طرف ہوتی ہے اور دوسری مخلوق کی طرف یا اس کی محبت‘ مقاصد اور آرزوئیں خدا اور خلق کے درمیان منقسم ہوتی ہیں‘ ایسا ہرگز نہیں۔
قرآن حکیم میں آیا ہے:ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ(سورئہ احزاب‘ آیت
۴)
”اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل پیدا نہیں کئے کہ وہ دو جگہ دل دے بیٹھے‘ ایک دل اور دو دلبر نہیں ہو سکتے۔“

انبیاءعلیہم السلام توحید کے ہیرو ہیں

انبیاءعلیہم السلام توحید کے ہیرو ہیں‘ ان کے افعال میں ذرہ برابر شرک کی آمیزش نہیں ہوتی‘ نہ انہیں مبداء میں شرک ہوتا ہے اور نہ مقصد‘ آرزو اور درد مندی میں‘ وہ دنیا کے ذرے ذرے سے عشق کرتے ہیں‘ اس لئے کہ وہ تمام ذرے اسی خدا سے ہیں اور انہی اسماء اور صفات کے مظاہر ہیں۔

اولیائے خدا کا دنیا سے عشق خدا سے ان کے عشق کا عکس ہے
اولیائے خدا کا دنیا سے عشق خدا سے ان کے عشق کا عکس ہے‘ لیکن یہ ایسا عشق نہیں‘ جو خدا سے ان کے عشق کے متوازی ہو‘ مخلوق سے ان کے درد کی بنیاد خدا سے ان کا درد ہی ہے‘ کوئی اور اصل اور منبع نہیں۔ ان کے مقاصد اور آرزوئیں وہ سیڑھی ہیں جن کے ذریعے سے وہ خود کی جانب جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی جانب لے جاتے ہیں اور یہ درد ان کی روحانی تکمیل کے لئے تازیانہ کا کام دیتا ہے اور اس سفر میں ان کا محرک ہوتا ہے جسے ”مخلوق سے خدا تک سفر“ کہا جاتا ہے اس درد کی وجہ سے وہ لحظہ بھر آرام اور قرار نہیں پاتے تاکہ وہ حضرت علیؑ
کے قول کے مطابق ”جائے امن“ میں پہنچ جائیں۔


اس سفر کا خاتمہ ان کے لئے ایک دوسرے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو ”خدا میں خدا کے ساتھ سفر“ کہلاتا ہے۔ یہی وہ سفر ہے جس میں ان کا ظرف بھر جاتا ہے اور وہ ایک اور طرح کا تکامل حاصل کر لیتے ہیں‘ نبی اس مقام پر پہنچ کر بھی نہیں رکتا‘ جب اس کا ظرف حقیقت سے لبریز ہو جائے اور وہ پورے روحانی دائرئہ زندگی کو طے کر لے اور منزلوں کی راہ جان لے تو پھر وہ مبعوث ہو جاتا ہے اور یہاں سے اس کا تیسرا سفر ”یعنی خدا سے مخلوق کی جانب سفر“ شروع ہو جاتا ہے اور وہ واپس بھیج دیا جاتا ہے لیکن اس کی یہ واپسی ایسی نہیں کہ وہ دوبارہ نقطہ اول پر چلا جائے اور اس نے وہاں جو کچھ حاصل کیا تھا اس سے محروم ہو جائے بلکہ اس نے وہاں جو کچھ پایا تھا‘ اپنے ساتھ واپس لاتا ہے‘ خدا سے مخلوق کی جانب سفر خدا کے ساتھ ہے نہ اس سے دور ہو کر‘ نبی کے تکامل کا یہ تیسرا مرحلہ ہے۔
نبی کی بعثت اور اس کی واپسی جو دوسرے سفر کے خاتمے پر وقوع میں آتی ہے۔ ایک طرح سے الٰہی خود شناسی سے مخلوقاتی خود شناسی کا پیدا ہونا اور الٰہی درد مندی سے مخلوقاتی درد مندی کا ظہور پانا ہے۔
مخلوق کی جانب واپسی سے اس کا چوتھا سفر اور اس کی تکمیل کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے یعنی ”خالق“ کے ساتھ مخلوق میں سفر“ اس آخری سفر کا مقصد یہ ہے کہ مخلوق کو شریعت کے راستے سے خدا کے لامتناہی کمال کی جانب روانہ کیا جائے یعنی حق‘ عدل اور انسانی قدروں کے راستے سے انسان کی غیر معمولی مخفی قوتوں کو عمل میں لایا جائے‘ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ ایک روشن خیال انسان کا انتہائی مقصد ہے وہ پیغمبر کے لئے سفر کی منزلوں میں ایک منزل ہے جہاں سے وہ مخلوق کو گذارتا ہے اور عارف جس چیز کا دعویٰ کرتا ہے وہ پیغمبر کے راستے میں موجود ہوتی ہے۔

کتاب: انسان قرآن کی نظر میں،شہید مطہری؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے