بین الاقوامی تعلقات اور اسکی حقیقت از رہبر انقلاب

دنیا صرف چند مغربی ممالک کا نام نہیں!

ملکی سیاست میں موجود بعض عناصر، جب ان کے سامنے ہم دنیا سے راہ و رسم رکھنے کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد چند ممالک ہوتے ہیں، مخصوصا مغربی ممالک۔ ان کے نزدیک دنیا کا مطلب یہ ہے۔ اگر ان ممالک سے ہمارا رابطہ ہوگا، گرم جوشی پر مبنی اور گہرے تعلقات ہوں گے تو اس کا مطلب کہ دنیا سے رابطہ ہے۔

 

سو سال پرانہ نظریہ، آج کے دور میں لاگو نہیں ہوتا!

بعض سیاسی عناصر کے مطابق اگر مغربی ممالک سے ہمارا رابطہ کم ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ غلط نظریہ ہے، یہ ایک ترقی کے مخالف نظریہ ہے، یہ سو سال پرانہ نظریہ ہے۔ ہاں سو سال پہلے یہی ماجرا تھا، چند یورپی ممالک تھے جو ظاہرا ہر چیز پہ مسلط تھے، ان سے رابطہ، گویا پوری دنیا سے رابطے تھا۔

 

دنیا سے تعلقات کے جدید معنی کو سمجھنا ضروری ہے!

اس نظریے کو سو سال بیت گئے کہ جب دنیا سے رابطے کا مطلب مغربی ممالک سے رابطہ سمجھا جاتا تھا، اس ترقی مخالف اور پرانے نظریے کو چھوڑنا پڑے گا۔ آج، دنیا سے رابطے کا مطلب یعنی افریقا سے رابطہ، یعنی لیٹن امریکہ سے رابطہ، یعنی ایشیائی ممالک سے رابطہ۔ برّ اعظم ایشیاء قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے، بلکل اسی طرح افریقا بھی ہے۔ ہمیں اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔ دنیا سے تعلقات رکھنا ضروری ہے۔ لہذا، بین الاقوامی تعلقات کا معیار، انقلابِ اسلامی کے مفادات ہیں۔ انقلاب اسلامی کے مفادات اور اس کی عزت و وقار!

 

 

عہد بصیرت ، رہبر معظم

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے