تہران کی تاریخی نماز جمعہ میں خطاب کا مکمل ترجمہ + موشن گرافک

تہران کی مرکزی نمازجمعہ اس ہفتے رہبرانقلاب اسلامی کی امامت میں ادا کی گئی جس میں دسیوں لاکھ نمازیوں نے  ایک یادگار شرکت تاریخ میں رقم کی۔ نمازیوں کے تاریخی اور عظیم الشان اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پچھلے دو ہفتے جو گزرے ہیں ان میں اہم واقعات رونما ہوئے جو ایرانی عوام کے لئے تلخ اور شیریں ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی تھے۔  

     

خطبوں کی ابتدا میں آپ نے سبھی مومنین اور نمازیوں کو تقوائے الٰہی کا خیال رکھنے کی نصیحت کی اور خدا کی نصرت و توفیقات کے حصول اور زندگی کے انفرادی و اجتماعی مسائل و مشکلات کے حل کے لئے تقوا کو لازمی شرط قرار دیا۔

پہلا خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ‌ ربّ العالمین نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نتوکّل علیہ و نصلّى و نسلّم على حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فى خلقہ حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ بشیر نعمتہ و نذیر نقمتہ سیّدنا و نبیّنا ابى‌ القاسم المصطفی محمّد و على آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الہداۃ المھدیّین سیّما بقیّۃ اللہ ‌فى الارضین و صلّی اللہ على ائمّۃ المؤمنین و ھداۃ المستضعفین و حماۃ المؤمنین.

میں تمام عزیز بھائيوں اور اپنے آپ کو خداوند متعال کا تقوی اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں۔ اگر ہم اللہ کی مدد چاہتے ہیں تو تقوے سے حاصل ہوگي، الہی توفیقات چاہتے ہیں تو یہ تقوے سے حاصل ہوں گي، اگر ہم اپنے ذاتی اور سماجی مسائل کا حل چاہتے ہیں تو وہ تقوے سے حاصل ہوگا، ہم سب کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ تقوائے الہی کو اپنے کاموں کی کسوٹی قرار دیں۔ نماز جمعہ میں جو بات اہم ہے وہ تقوے کی نصیحت ہے۔ میں خود، آپ سے زیادہ اس نصیحت کا محتاج ہوں اور ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم اس بات کی توفیق عطا کرے گا کہ ہم میں سے ہر کوئي اپنی بضاعت و استطاعت کے حساب سے خداوند متعال کا تقوی اختیار کرے گا۔

سورۂ ابراہیم میں، قرآن مجید کی دیگر آیات کی طرح ایک انتہائي معنی خیز اور اعلی مضمون کی آیت ہے۔ آج میں اسی آیت اور اس کے بعد کی آیتوں کے ذیل میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آيت میں کہا گیا ہے۔ "و لقد ارسلنا موسی بآیاتنا ان اخرج قومک من الظلمات الی النور و ذکرھم بایام اللہ.”(1) آیت حضرت موسی کو نصیحت کر رہی ہے، حکم دے رہی کہ ذکّرھم بایام اللہ۔ اس کے معنی میں دو امکان پائے جاتے ہیں اور اس آیت سے ہمارا جو مقصود ہے، اس میں ان دونوں امکانات میں سے جو بھی ہو کوئي فرق نہیں پڑتا۔ ایک امکان یہ ہے کہ انھیں ایام اللہ یا اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ اور دوسرا امکان یہ ہے کہ آيت کا مقصود یہ ہے کہ ایام اللہ کے وسیلے سے انھیں خدا کی، دین کی اور قیامت کی یاد دلاؤ۔ یہاں پر ایام اللہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے اولو العزم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو ایام اللہ کی یاد دلائیں۔ اس کے بعد کہا گيا ہے۔ "انّ فی ذلک لایآت لکل صبّار شکور.”(2) ایام اللہ، آيات ہیں، نشانیاں ہیں، راستے کا چراغ ہیں۔ کن لوگوں کے لیے؟ ان لوگوں کے لیے جن میں یہ دو صفتیں ہیں: جو صبّار یعنی بہت زیادہ صبر کرنے والے اور شکور یعنی خدا کا بہت زیادہ شکر بجا لانے والے ہیں۔ صبّار کا مطلب ہے وہ شخص جو سر تا پا صبر و استقامت ہے، صبر و استقامت کا مجسمہ ہے، شکور کا مطلب ہے وہ شخص جو نعمت کو پہچانتا ہے اور شکر بجا لاتا ہے۔ اس شکر بجا لانے کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

اس کے بعد اگلی آيت میں قرآن مجید فرماتا ہے کہ حضرت موسی نے اس حکم کی تعمیل کی۔”و اذ قال موسی لقومہ اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ انجاکم من آل فرعون.” (3) انھوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو فرعون اور فرعون کے لوگوں کے چنگل سے نجات کی یاد دلائي۔ یہ یاد دلایا کہ کس طرح اس نے تمھیں ظالم اور ستمگر طاقت سے بچایا۔ یہ ایام اللہ میں سے ہے۔ ایام اللہ کا ایک نمونہ یہ ہے؛ اذ انجاکم من آل فرعون۔ جب اللہ نے تمھیں آل فرعون سے نجات دی؛ تو یہ دن، ایام اللہ میں سے ایک ہو گيا، جب سماجوں، انسانوں اور قوموں کو ظالم طاقتوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ اس کے آگے کی آيت میں پروردگار عالم کا عمومی خطاب ہے، خداوند عالم کی صدا ہے: و اذ تاذّن ربکم، تاذّن یعنی خداوند عالم بلند آواز سے سبھی سے یہ کہہ رہا ہے کہ "لئن شکرتم لازیدنّکم”، اگر تم نے شکر ادا کیا تو ہم نے تمھیں جو نعمت عطا کی ہے، اس میں روز بروز اضافہ کریں گے، اسے بڑھائیں گے؛ "و لئن کفرتم ان عذابی لشدید.” (4) لیکن اگر تم نے ناشکری کی، شکر کی ذمہ داری ادا نہیں کی تو پھر عذاب الہی کا مقام ہے، بے شمار مشکلات ہیں جو تمھارے سامنے آئيں گي۔ اس کے بعد اگلی آيت میں ان ساری باتوں کا ایک مجموعی نتیجہ نکال کر کہا گيا ہے: "و قال موسی ان تکفروا انتم و من فی الارض جمیعا فان اللہ لغنی حمید.”(5) یہ جو ہم کہتے ہیں کہ شکر بجا لائیے، یہ جو کہتے ہیں کہ خدا کی نعمتوں پر توجہ دیجیے، خدا کی نعمت کو فراموش نہ کیجیے، یہ خود آپ کے لیے ہے ورنہ خداوند متعال تو بے نیاز ہے۔

تو ایام اللہ کی بہت اہمیت ہے۔ میں ایام اللہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، کن لوگوں کے لیے؟ ان لوگوں کے لیے جو صبّار اور شکور ہیں۔ صبار ہیں یعنی پوری طرح سے صبر و استقامت والے ہیں۔ تھوڑی سی بات پر میدان سے نہیں نکل جاتے، استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شکور ہیں، یعنی اول تو وہ نعمت کو پہچانتے ہیں، اس کے ظاہری و باطنی پہلوؤں کو دیکھتے ہیں؛ دوسرے یہ کہ نعمت کی قدر کرتے ہیں۔ یعنی اس نعمت کی قدر کو، اس کے وزن کو اور اس کی قیمت کو سمجھتے ہیں؛ تیسرے یہ کہ اس کی بنیاد پر ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، خداوند عالم نے انھیں جو نعمت دی ہے اس کی بنیاد پر انھیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے؛ وہ قوم، وہ ملت اور وہ سماج جو بے صبرا نہیں ہے، غیر ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ آیتیں، سورۂ ابراہیم کی ہیں جو مکّی سورہ ہے،  یعنی یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئي ہیں جب مسلمان، کفر کے محاذ کے مقابلے میں اپنی جد و جہد اور استقامت و مزاحمت کے عروج پر تھے۔ اس وقت نازل ہونے والی ان آيتوں میں مسلمانوں کو بشارت دی گئي ہے، لوگوں سے کہا گیا ہے کہ جان لو کہ خداوند متعال کے ایام اللہ ہیں، وہ ان ایام اللہ کو تمھیں عطا کرے گا لیکن تمھیں ایام اللہ کا شکر ادا کرنا ہوگا۔ اگر تم نے صحیح اور شاکرانہ ردعمل دکھایا تو خداوند عالم نے تمھیں جو کچھ دیا ہے، مستقبل میں اس سے زیادہ کامیابیاں تمھیں عطا کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں یہ جو چند نکات ہیں، وہی پہلے خطبے میں ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہیں۔

یہ جو دو ہفتے گزرے ہیں، یہ بڑے غیر معمولی اور حادثات سے بھرے ہوئے تھے۔ ان دو ہفتوں میں ایرانی قوم کے لیے تلخ واقعات، شیریں واقعات اور سبق آموز واقعات رونما ہوئے ہیں۔ یوم اللہ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی وہ دن جب انسان، حادثات اور واقعات میں اللہ کے دست قدرت کا مشاہدہ کرے، جس دن کروڑوں لوگ ایران میں اور لاکھوں لوگ عراق اور بعض دیگر ممالک میں سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر کے خون کے احترام میں سڑکوں پر نکلے اور انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی الوداعی تقریب تشکیل دی، تو یہ ایام اللہ میں سے ایک ہے۔ جو کچھ ہوا، اسے کرنے والا اللہ کے دست قدرت کے علاوہ کوئي نہیں ہو سکتا۔ اور جس دن سپاہ پاسداران انقلابی اسلامی کے میزائلوں نے امریکی فوجی اڈے کو تباہ کیا، وہ دن بھی ایام اللہ میں سے ایک ہے۔ ہم نے انھی گزشتہ کچھ دنوں میں اپنی آنکھوں کے سامنے ایام اللہ میں شامل ان دو دنوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ تاریخ کے اہم موڑ والے دن ہیں، یہ تاریخ ساز دن ہیں، یہ عام دن نہیں ہیں۔ یہ کہ ایک قوم میں یہ روحانی طاقت ہے کہ وہ دنیا کی ایک گھمنڈی اور جابر طاقت کو اس طرح تھپڑ رسید کر سکتی ہے، تو اس سے اللہ کے دست قدرت کا مشاہدہ ہوتا ہے، بنابریں یہ دن یوم اللہ ہے۔ دن ختم ہو جاتے ہیں لیکن ان دنوں کے اثرات، قوموں کی زندگي میں باقی رہتے ہیں، قوموں کے جذبوں میں، قوموں کی روش میں، قوموں کی راہ میں یہ دن جو اثر ڈالتے ہیں، وہ باقی رہتے ہیں اور بعض تو دائمی ہو جاتے ہیں۔

ہماری نظر میں ایرانی معاشرہ ایک صبّار اور شکور معاشرہ ہے۔ ہماری قوم، استقامت کرنے والی قوم ہے اور شکر گزار قوم ہے۔ ان برسوں میں ایرانی قوم لگاتار الطاف الہی کی شکر گزار رہی ہے۔ ہماری صبار اور شکور قوم کو ان آیتوں سے سبق لینا چاہیے۔ ہم نے کہا کہ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس چیز کے مادی اور معنوی پہلوؤں کی شناخت کریں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اکتالیس برس بعد کون سی طاقت تھی جو اس عدیم المثال مجمع کو میدان میں لے آئي؟ یہ اشک، عشق اور جذبہ کس نے پیدا کیا؟ جو لوگ ان واقعات میں خدا کا ہاتھ نہیں دیکھ سکتے اور ان مسائل میں صرف مادی تجزیہ کرتے ہیں، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ خدا کے ہاتھ کو دیکھنا چاہیے۔ اس واقعے کا معنوی اور انتہائي اہم پہلو یہی ہے کہ خداوند عالم یہ کام کر رہا ہے۔ جب خداوند متعال، قوم میں اس طرح کی کوئي جنبش وجود میں لاتا ہے تو انسان کو محسوس کرنا چاہیے کہ خداوند عالم اس قوم کو فتحیاب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ یہ قوم، اسی راستے پر آگے بڑھتی رہے اور کامیاب ہو جائے۔ اس سے اس قوم کے جذبات اور باطن کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ عشق، یہ وفاداری، یہ استقامت اور امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر عظیم بیعت کہ لوگوں نے میدان میں اپنی موجودگی کے ذریعے امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر عظیم بیعت بھی کی ہے۔ اتنی عظیم بیعت اور وہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے تیس سے زائد سال بعد لوگوں نے ان سے بیعت کی، امام خمینی اس طرح زندہ ہیں۔ کیا ہوا کہ صیہونیت کے تشہیراتی سامراج کی کوشش کے باوجود، اس واقعے سے کچھ دن پہلے اور بعد میں صیہونیت کے تشہیراتی سامراج نے بڑی کوشش کی کہ ہمارے اس عزیز اور عظیم کمانڈر پر دہشت گردی کا الزام عائد کرے، خود امریکی صدر نے کہا، ان کے وزیر خارجہ نے کہا، پوری دنیا میں صیہونی میڈیا نے بار بار دہرایا، "دہشتگرد، دہشتگرد”، خداوند متعال نے صفحہ ان کے خواہش کے بالکل برخلاف ترسیم کیا؟ صرف یہاں ایران میں ہی نہیں، دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگوں نے اس عظیم شہید کی روح پر درود بھیجا اور امریکا اور صیہونیوں کے پرچم کو نذر آتش کیا۔ کیا اللہ کے ہاتھ کو واضح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا؟ کیا اس سے "لا تحزن ان اللہ معنا” (6) کا واضح طور پر پتہ نہیں چلتا جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انتہائي دشواری کے عالم میں، غار ثور میں تنہائي اور بے کسی کے عالم میں اپنے ساتھی سے کہا: "لا تحزن ان اللہ معنا” اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ کیا قوم بنی اسرائیل سے جو بہت ڈری ہوئي تھی اور کہہ رہی تھی کہ  "انا لمدرکون” (7) ابھی فرعون کے سپاہی آ کر ہمارا محاصرہ کر لیں گے اور ہمیں پوری طرح سے تباہ کر دیں گے، اس کے جواب میں حضرت موسی علیہ السلام کے اس قول کو انسان نہیں دیکھ سکتا کہ "کلا ان معی ربی سیھدین” (8) کیا انسان یہاں "ان معی ربی” کو نہیں دیکھ سکتا؟ کیا ایرانی قوم یہ محسوس نہیں کر سکتی کہ "ان اللہ معنا”، خدا ہمارے ساتھ ہے؟ خداوند عالم نے اپنے طاقتور ہاتھ کو اس ملک میں، اس معاشرے اور اس قوم میں فعال کر دیا ہے۔ خود اس عظیم شہادت نے بھی، یہ بات تو جلوس جنازہ سے متعلق تھی لیکن خود یہ شہادت بھی اللہ کی طاقت کی ایک نشانی ہے، امریکی حکومت کی رسوائي، امریکا کی بے عزتی اور اس حکومت کی فضیحت کر دی۔ ان لوگوں نے اس شخص کو، جو دہشت گردی سے جنگ کا سب سے مشہور اور سب سے طاقتور کمانڈر تھا، شہید سلیمانی حقیقی معنی میں اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سب سے مضبوط کمانڈر تھے اور اسی حیثیت سے پہچانے بھی جاتے تھے، دہشت گردانہ حملے میں قتل کر دیا؛ کون سا دوسرا کمانڈر تھا جس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ، وہ کام کرے جو انھوں نے انجام دیے؟ ایک علاقہ جو دشمن کے تین سو ساٹھ ڈگری کے محاصرے میں ہے، شہید سلیمانی اس علاقے میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچتے ہیں، دشمن کے مکمل محاصرے میں اس علاقے میں اچھے نوجوان ہیں جو اکیلے ہیں، ان کا کوئي کمانڈر نہیں ہے، ان کی نظریں جنرل قاسم سلیمانی پر پڑتی ہیں اور ان میں نئي جان پڑ جاتی ہے، جذبہ پیدا ہو جاتا ہے، محرک پیدا ہو جاتا ہے وہ محاصرہ توڑ دیتے ہیں اور دشمن کو بھاگنے اور فرار ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں، یہ کام کون کر سکتا ہے؟ ان لوگوں نے پورے خطے میں دہشت گردی کے کمانڈر، سب سے مضبوط اور سب سے مشہور کمانڈر کو قتل کر دیا۔ انھوں نے میدان میں اور رو برو ان کا مقابلہ نہیں کیا، امریکی حکومت نے پیچھے سے اور بزدلی کے ساتھ انھیں قتل کیا، ان لوگوں نے خود اعتراف بھی کیا کہ یہ کام امریکا کی ذلت کا باعث بن گيا۔ اس خطے میں اس حادثے سے پہلے تک اس طرح کے کام صیہونی حکومت سے مختص تھے کہ لوگوں کو حملہ کرکے قتل کرے، اس نے حماس کے رہنما کو قتل کیا اور کہا کہ ہم نے قتل کیا ہے، جہاد اسلامی کے رہنما کو قتل کیا اور کہا کہ ہم نے قتل کیا ہے، صیہونی قتل کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے کیا ہے؛ امریکیوں نے بہت زیادہ قتل کیے ہیں، عراق میں، افغانستان اور دوسری جگہوں پر، وہ جتنے قتل کر سکتے تھے انھوں نے کیے ہیں لیکن وہ اعتراف نہیں کرتے تھے کہ ہم نے قتل کیا ہے؛ اس بار انھوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے قتل کیا ہے، اس بار امریکی صدر نے اپنی زبان سے اعتراف کیا، خداوند عالم ان لوگوں کو تباہ کرے جو خود بھی اعتراف کرتے ہیں، امریکیوں نے اعتراف کیا کہ ہم دہشت گرد ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم نے قتل کیا ہے، اس سے بڑی ذلت کیا ہو سکتی ہے؟ سپاہ پاسداران کا دنداں شکن جواب بھی قابل غور ہے۔ شہید عزیز کی عظیم شہادت اور ان کے جلوس جنازہ کا یوم اللہ قرار پانا، معاملے کا ایک پہلو ہے، سپاہ کا طاقتور ردعمل، معاملے کا دوسرا پہلو ہے، یہ بھی قابل غور ہے، یہ امریکا پر ایک ضرب تھی۔ البتہ فوجی ضرب تھی، مؤثر فوجی ضرب تھی لیکن فوجی ضرب سے بھی زیادہ اہم اور اعلی، اس کی حیثیت پر لگنے والی چوٹ تھی، امریکا کی سپر پاور کی ہیبت پر لگنے والی چوٹ تھی۔ امریکا برسوں سے شام میں، عراق میں، لبنان میں اور افغانستان میں چوٹ کھا رہا ہے، استقامت کے مضبوط ہاتھوں سے چوٹ کھا رہا ہے لیکن یہ چوٹ ان سب سے اوپر تھی۔ یہ اس کی حیثیت پر چوٹ تھی، امریکا کی ہیبت پر چوٹ تھی، اس چوٹ کی کسی بھی چیز سے بھرپائی نہیں کی جا سکتی۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پابندی لگا دی ہے، پابندیوں میں اضافہ کر رہے ہیں لیکن اس سے امریکا کی کھوئي ہوئي عزت واپس آنے والی نہیں ہے۔ اس مقتدرانہ جواب کی ایسی خصوصیت تھی۔ یہ بھی الہی مدد کا ایک جلوہ ہے جو مخلصانہ جہاد کا صلہ ہے۔

میرے عزیزو! نمازی بھائيو اور بہنو! اخلاص میں برکت ہے۔ جہاں بھی اخلاص ہوگا، خداوند متعال اپنے مخلص بندوں کے اخلاص میں برکت عطا کرے گا، کام میں برکت ہوگي، وہ کام فروغ پائے گا، وہ ایسا کام ہو جائے گا جس کا اثر سب تک پہنچے گا، اس کی برکتیں لوگوں کے درمیان باقی رہیں گي۔ اُس اخلاص کا نتیجہ، لوگوں کا یہ والہانہ عشق، یہ وفاداری، یہ آہ و گریہ، یہ عوام کی موجودگي اور لوگوں کے انقلابی جذبات میں تازگي آنا ہے۔ لیکن ہم ان واقعات کو کیلنڈر میں یاد رکھیں، ان کی قدر و قیمت طے کریں، ان کی قدر کریں اور یہ دیکھیں کہ ان کی حیثیت اور ان کی قیمت کیا ہے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم شہید عزیز قاسم سلیمانی اور شہید عزیز ابو مہدی کو ایک فرد کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ انھیں ایک مکتب فکر کی حیثیت سے دیکھیں۔ ہم اپنے عزیز اور شہید کمانڈر کو ایک مکتب فکر، ایک راستے اور ایک سبق آموز مدرسے کی نظر سے دیکھیں، اس نظر سے دیکھیں گے تب اس معاملے کی اہمیت واضح ہوگي، اس واقعے کی قدر و قیمت اجاگر ہوگي۔ ہم سپاہ قدس کو صرف ایک دفتری ادارے کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ اسے ایک انسانی اور عظیم و واضح محرکات کے حامل ادارے کی حیثیت سے دیکھیں۔ اگر ایسا ہو گيا تو پھر اس عوامی اجتماع، اس عوامی خراج عقیدت اور خراج تحسین کے کچھ اور ہی معنی ہوں گے۔ البتہ فوج، سپاہ اور رضاکار فورس سمیت ہماری مسلح افواج کے تمام افراد کی فکری بنیاد، اہداف الہی پر مبنی ہے اور اس میں کوئي شک نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک کی صورتحال یہ ہے۔ ہماری مسلح افراد کے تمام فوجیوں کی فکری بنیاد یہی الہی اور بلند اہداف ہیں۔ سپاہ قدس ایک ایسی فورس ہے جو کشادہ دلی کے ساتھ ہر کسی کو اور ہر جگہ کو دیکھتی ہے۔ یہ بغیر سرحد کے مجاہد ہیں، بغیر سرحد کے مجاہد۔ یہ وہ مجاہد ہیں جو ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے؛ یہ مستضعف لوگوں کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں، اپنے آپ کو مقدسات کی حفاظت میں نثار کر دیتے ہیں۔ سپاہ قدس کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یہی لوگ ہیں، جو اپنی جان کی بازی لگا کر، اپنی پوری توانائي کے ساتھ دوسری اقوام اور خطے کے اطراف کے کمزور لوگوں کی مدد کے لیے جاتے ہیں، یہی لوگ جنگ، دہشت گردانہ حملوں اور تخریب کاری کے سائے کو ہمارے ملک سے بھی دور کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے ملک کی سلامتی کا ایک اہم حصہ، انھی مومن نوجوانوں کے کام کا نتیجہ ہے جنھوں نے برسوں تک ہمارے عزیز اور شہید کمانڈر کی کمانڈ میں کام کیا ہے، سلامتی یہی لوگ لائے ہیں، ملک کے لیے سلامتی بھی یہی لاتے ہیں۔ ہاں، یہ فلسطین، غزہ اور دیگر خطوں میں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے، جاتے ہیں لیکن ہمارے اپنے ملک کے لیے بھی سلامتی وجود میں لاتے ہیں۔ وہ دشمن، جسے امریکا نے لیس کر رکھا ہے، وہ صرف عراق اور شام کے لیے نہیں بلکہ آخر میں ایران کے لیے، پیارے ایران کے لیے بھی خطرہ ہے، ان لوگوں نے داعش کو وجود عطا کیا، صرف اس لیے نہیں کہ وہ عراق پر مسلط ہو جائے بلکہ اصل اور حتمی ہدف ایران تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس راستے سے ہماری سلامتی کو، ہماری سرحدوں کو، ہمارے شہروں کو اور ہمارے گھرانوں کو بدامنی اور تشویش میں مبتلا کر دیں۔ انھیں، انھی مومن اور عزیز نوجوانوں کی مدد سے روکا گیا جنھوں نے جا کر یہ بڑی کوشش انجام دی۔

وہ فریب خوردہ افراد جنہوں نے ایک موقع پر نعرے لگائے تھے: "نہ غزہ نہ لبنان  (جانم فدائے ایران)” وہ ایران پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تو ہرگز آمادہ نہیں ہوئے بلکہ وہ ملک کے لئے اپنی آسائش اور اپنے مفادات بھی قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ ایران پر جن افراد نے اپنی جانیں قربان کیں وہ بھی یہی شہید سلیمانی جیسے افراد ہی ہیں۔ جب ملک کے دفاع کا وقت تھا تو یہی لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں اترے اور ملک کی حفاظت کی، ایران کا دفاع کیا۔ انھیں افراد کو یہ دعوی کرنے کا حق ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان افراد کا جذبہ قربانی اور اخلاص ہر مرحلے اور موڑ پر کارساز ثابت ہوا ہے۔ اس زاویہ نگاہ سے ہم ملت ایران کا، ملت ایران کے معنوی حقائق اور ملت ایران کی باطنی حقیقت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یہ جو لوگ سڑکوں پر نکلے۔ دسیوں لاکھ کی تعداد میں تہران میں، قم میں، کرمان میں، خوزستان میں اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر آئے، ان عزیزوں کے جلوس جنازہ کا حصہ بنے اور جن لوگوں نے دور سے دیکھا اور آنسو بہائے اور جن لوگوں نے مختلف شہروں میں دور سے ان کے لئے عزاداری کی۔ واقعی اس عظیم عمل میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں ہمارے عوام نے شرکت کی۔ اس عمل کی حقیقت کو اور اس کے باطن کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے امور میں سارے عوام خواہ وہ کسی بھی دھڑے، کسی بھی پارٹی، کسی بھی گروہ، کسی بھی قومیت، کسی بھی جغرافیائی خطے سے تعلق رکھتے ہوں یکساں ہیں، سب انقلاب کے طرفدار ہیں، اسلام کی حکمرانی کے حامی ہیں، ظلم کے مقابلے استقامت کے طرفدار ہیں، استکباری و استعماری حکومتوں کے حریصانہ مطالبات کو ٹھکرا دینے کے حامی ہیں۔

ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ شجاعانہ جدوجہد کے محاذ کی حامی ہے۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ مزاحمت و استقامت کی علامت و مظہر قرار پانے والوں سے گہری محبت کرتی ہے۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ استقامت کی حامی ہے، ہتھیار ڈال دینے کی قائل نہیں ہے۔ جو لوگ ہماری عظیم قوم کے بارے میں عوام کو، بیرونی رائے عامہ کو یا ملک کے اندر رائے عامہ کو کوئی اور تصویر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ صداقت و سچائی سے کام نہیں کرتے۔ ملت یہ ہے، ملت استقامت کی طرفدار ہے، استقامت کی حامی ہے، دشمنوں کے جابرانہ روئے کے مقابلے میں مزاحمت کی طرفدار ہے۔ یہ امریکی بہروپئے جو بڑی بے غیرتی سے دروغگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایران کے عوام کے ساتھ ہیں، انھیں چاہئے کہ آنکھ کھول کر دیکھ لیں کہ ایران عوام کون ہیں۔ وہ چند سو لوگ جہنوں نے ہمارے مایہ ناز شہید کمانڈر کی تصویر کی بے حرمتی کی وہ ایرانی عوام ہیں یا یہ دسیوں لاکھ لوگ جو سڑکوں پر آتے ہیں اور دنیا کو اپنے وجود سے آگاہ کرتے ہیں؟ (13) امریکہ کی شر پسند حکومت کی ترجمانی کرنے والے افراد بار بار کہتے ہیں کہ ہم ایران کے عوام کے ساتھ ہیں! آپ جھوٹ بول رہے ہیں! اگر آپ ایران کے عوام کے ساتھ ہوں بھی تو اس لئے ہوں گے کہ اپنا زہر آلود خنجر ایرانی عوام کے سینے میں پیوست کر دیں۔ البتہ اب تک تو آپ کو اس میں کامیابی نہیں ملی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ آپ کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے (14)۔ اس قضیئے میں ملت ایران نے اپنا کارنامہ رقم کیا، اپنی حقیقت کو نظروں کے سامنے پیش کیا، ملت ایران نے اپنی فکری بنیادوں اور فکری پیرائے کا مظاہرہ کیا۔ ملت ایران نے اپنے سچے جذبات کا مظاہرہ کیا۔ ملک بھر میں انتقام کا جو مطالبہ عوام سے سنا گیا، یہ آواز در حقیقت ان میزائلوں کا ایندھن بنی جنہوں نے امریکی چھاونی کو تہہ و بالا کر دیا (15)۔

اس یوم اللہ کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور نکتہ بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی حضرت موسی سے فرماتا ہے کہ وَ ذَکِّرهُم بِاَیّامِ ‌الله (۱۶) یعنی ایام اللہ کا لوگوں کی یادداشت میں باقی رہنا ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کے بے حد حساس یوم اللہ فراموش کر دئے جائیں۔ یہ لوگ دوسری باتیں چھیڑ دیتے ہیں تاکہ شاید اس عظیم الشان یوم اللہ کے ذکر کو حاشئے پر ڈال سکیں۔ ایک اسی طرح کا واقعہ ہوائی جہاز گرنے کا افسوسناک سانحہ تھا۔ اس نے حقیقی معنی میں ہمیں غمگین کر دیا۔ عزیز نوجوانوں کو، اپنے بہت اچھے لوگوں کو اسی طرح ان افراد کو جو دوسرے ملکوں کے تھے اور یہاں آئے تھے، گنوا دینا بہت تلخ واقعہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن کچھ لوگ امریکی ٹی وی چینلوں اور برطانوی ریڈیو نشریات کی ایما پر اس واقعے کو اس انداز سے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ان دو عظیم شہیدوں کی شہادت کے نتیجے میں یوم اللہ کا سارا ماجرا فراموش کر دیا جائے۔ بہ خیال خویش انھوں نے بڑی کوشش کی کہ لوگ اسے پوری طرح فراموش کر دیں۔ یہ ایسے افراد ہیں جن کے اندر قومی مفادات اور ملکی مفادات کا کوئی بھی درد اور کوئی بھی لگاؤ نظر نہیں آتا۔ واقعی بہت تعجب کی بات ہے۔ کچھ لوگ تو نئی عمر کے ہیں، جذباتی ہیں، فریب کھا جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے نہیں ہیں، نوجوان نہیں ہیں، یہ افراد قومی مفادات کو سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں، ان کے ادراک کے لئے اور ان کی حفاظت کے لئے کچھ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان کی زبان سے بھی وہی باتیں نکلتی ہیں جو دشمن چاہتا ہے، ان کے عمل میں بھی وہی چیزیں نظر آتی ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہوائی جہاز گرنے سے جتنی تکلیف ہمیں پہنچی اور جتنا غم ہمیں ہوا، اس سانحے پر ہمارا دشمن اتنا ہی زیادہ خوش ہوا، ہمارے دشمن کو مسرت ہوئی۔ اس خیال سے کہ انھیں ایک بہانہ مل گیا ہے اور اس طرح وہ پاسداران انقلاب فورس پر سوال اٹھا سکیں گے، مسلح فورسز پر سوالیہ نشان لگا سکیں گے، اسلامی جمہوری نظام پر سوالیہ نشان لگا سکیں گے۔ وہ یہی کرنا چاہتے تھے تاکہ شاید اس عظیم واقعے کو حاشئے پر ڈال سکیں۔ لیکن ان سے غلطی ہوئی۔ وَ مَکَروا وَ مَکَرَ اللهُ وَ اللهُ خَیرُ الماکِرین (۱۷) انہوں نے عیاری کی لیکن انھیں نہیں معلوم کہ دست قدرت پروردگار کے سامنے ان کی عیاری بے اثر ہے، کچھ نہیں کر سکتی۔ شہید کے جلوس جنازہ کا دن یوم اللہ ہے اور امریکیوں کی چھاونی کو تباہ کرنے کا دن یوم اللہ ہے جو عوام کے ذہنوں سے کبھی نہیں مٹے گا، بلکہ روز بروز ان شاء اللہ اس کی یاد اور نمایاں ہوتی جائے گی۔

میں یہیں پر اس سانحے سے متاثر افراد سے ایک بار پھر تہہ دل سے اظہار ہمدردی کرنا چاہتا ہوں، ہم ان کے غم میں شریک ہیں۔ ان ماں باپ کا اور ان سوگواروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے دل غم و اندوہ سے پر ہونے کے باوجود دشمن کی سازش اور بہکاوے کا جواب دیا۔ دشمن کی چاہت کے برخلاف موقف اختیار کیا اور بیان دیا۔ اس ہوائی جہاز میں جو لوگ موجود تھے ان میں ایک کی والدہ نے مجھے خط لکھا اور کہا کہ ہم اسلامی جمہوریہ کی حمایت میں کھڑے ہیں، آپ کے اہداف و مقاصد کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ یہ کہنے کے لئے شجاعت کی ضرورت ہے، فہم و بصیرت کی ضرورت ہے۔ واقعی ایسے افراد کے سامنے تعظیم میں سر جھکانے کا دل چاہتا ہے۔

میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ان عظیم واقعات پر پردہ ڈالنے کی غرض سے جو دوسرے اقدامات کئے گئے ان میں ایک اقدام یہی ہے جو تین یورپی حکومتوں نے کیا۔ خبیث برطانوی حکومت، فرانسیسی حکومت، جرمن حکومت نے۔ ایران کو دھمکی دینا کہ ایٹمی مسئلے کو ہم دوبارہ سلامتی کونسل میں لے جائیں گے۔ البتہ خوشی کا مقام ہے کہ ملک کے عہدیداران نے منہ توڑ جواب دیا، انھیں ٹھوس جواب دیا۔ یہ تین ممالک وہی ہیں جو ہمارے اوپر مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں جہاں تک ممکن تھا صدام حسین کی مدد کرتے تھے۔ جرمنی کی حکومت نے کیمیکل ہتھیاروں کے وسائل اور کیمیکل ہتھیار صدام حسین کو دئے تھے کہ وہ شہروں اور محاذوں پر کیمیکل حملے کرے۔ ہمارے پرانے مجاہدین میں آج تک ان حملوں کے اثرات موجود ہیں۔ فرانس کی حکومت نے ہمارے تیل ٹینکروں کو نشانہ بنانے کے لئے سپر اٹینڈرڈ ہیلی کاپٹر صدام حسین کو دئے تھے۔ یہ ان کا گزشتہ ریکارڈ ہے۔ برطانوی حکومت ہر اعتبار سے ہمارے دشمنوں کی خدمت میں لگی ہوئی تھی، صدام کی خدمت میں لگی ہوئی تھی۔ یہ ایسے لوگ ہیں۔ ان کا یہ ماضی ہے۔ آج بھی وہ اس انداز سے کام کر رہے ہیں۔ ان کو اسی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ میں نے شروع سے کہا، ایٹمی ڈیل سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد جب یہ تینوں حکومتیں بار بار بیان دے رہی  تھیں، مسلسل مہمل بیانی کر رہی تھیں، تو اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ ان پر ہمیں بالکل اعتماد نہیں ہے۔ یہ کوئی اقدام نہیں کریں گی۔ یہ امریکہ کا ساتھ دیں گی۔ آج بالکل واضح ہو چکا ہے۔ تقریبا ایک سال گزرنے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ یہ حقیقی معنی میں امریکہ کے فرماں بردار ممالک ہیں، امریکہ کے اشارے پر ناچنے والے ممالک ہیں۔ اس کے باوجود ان حقیر حکومتوں کو یہ توقع ہے کہ وہ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لیں گی۔ امریکہ جو آپ کا آقا ہے، آپ کا رہنما ہے، آپ کا مالک ہے وہ تو ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر نہیں پایا  تو آپ کی کیا بساط ہے کہ آپ ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے بارے میں سوچیں (18)۔ یہ ممالک مذاکرات بھی کرتے ہیں تو اس میں بھی فریب اور عیاری چھپی ہوتی ہے۔ جو افراد مذاکرات کی میز پر نظر آتے ہیں، مذاکرات کی میز پر بیٹھنے والے جنٹلمین در حقیقت وہی بغداد ایئرپورٹ کے دہشت گرد ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بس پوشاک بدل لیتے ہیں۔ یہ وہی کرخت پنجہ ہے جس پر مخمل کا غلاف ہے، یہ غلاف وہ کبھی کبھی اتارتے ہیں اور اپنی اصلیت دکھاتے ہیں۔ ان کا باطن وہی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ ایسے لوگ ہرگز نہیں ہیں جن پر انسان بھروسہ کر سکے۔

اب جب ملت ایران اس واقعے سے آشنا ہو چکی ہے۔ اس کی قدر و منزلت سے آگاہ ہو چکی ہے تو اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ میں اختصار سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عزیز ایرانی عوام کے اندر یہ حوصلہ ہونا چاہئے کہ خود کو مستحکم بنائے رکھیں (19)۔ ملت ایران کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو مستحکم بنائے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ ہم طاقتور بنیں۔ مذاکرات سے ہمیں کوئی پرہیز نہیں ہے۔ البتہ مذاکرات امریکہ سے نہیں، دوسروں سے۔ لیکن کمزور پوزیشن میں مذاکرات نہیں بلکہ مستحکم پوزیشن میں، مضبوط پوزیشن میں مذاکرات۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنانا چاہئے۔ تیل پر معیشت کا انحصار ختم کیا جانا چاہئے۔ معیشت کے تیل پر انحصار کی صورت حال سے ہمیں نجات حاصل کرنا چاہئے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں تیز رفتار پیشرفت جاری رہنا چاہئے۔ ان ساری چیزوں کے لئے مضبوط پشت پناہ اور سہارا میدان میں عوام کی موجودگی ہے۔ ملت ایران اور ملک کے عہدیداران کی ساری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ ملک طاقتور بنے، قوم طاقتور بنے۔ اتحاد کے ذریعے، میدان عمل میں موجودگی کے ذریعے، صبر و استقامت کے ذریعے، سخت کوشی کے ذریعے، تساہلی سے اجتناب کے ذریعے، اگر توفیق خداوندی سے، فضل پروردگار سے یہ ہو گیا تو وہ دن دور نہیں کہ ملت ایران اس مقام پر پہنچ جائے گی کہ دشمن اسے دھمکی دینے کی بھی جرئت نہیں کر پائیں گے۔۔۔۔ (20)۔

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ * وَ العَـصرِ * اِنَّ ‌الاِنسانَ‌ لَفی‌ خُسرٍ * اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ‌‌ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ ‌وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ.(۲۱)

 

خطبہ دوم

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و آله الطّاهرین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته الزّهراء المرضیّة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علىّ ‌بن ‌الحسین زین العابدین و محمّد بن‌ علىّ الباقر و جعفر بن‌ محمّد الصّادق و موسىٰ ‌بن ‌جعفر الکاظم و علىّ ‌بن‌ موسىٰ الرّضا و محمّد بن ‌علىّ الجواد و علىّ ‌بن ‌محمّد الهادی و الحسن ‌بن ‌علىّ الزکیّ العسکری و الحجّة بن الحسن القائم المهدی صلوات‌ الله علیهم اجمعین. اوصیکم عباد الله‌ بتقوى الله‌.

ایک بار پھر تمام بھائیوں اور بہنوں کو گفتار میں، کردار میں، رفتار میں، زندگی میں، اختلافات کی صورت میں ان تمام چیزوں میں تقوائے الہی کو مد نظر رکھنے کی سفارش کرتا ہوں۔ رضائے پروردگار کو مد نظر رکھیں۔ میں دو باتیں بہت اختصار سے عرض کروں گا اس کے بعد اپنے عرب بھائیوں کی خدمت میں کچھ معروضات پیش کروں گا۔ دو باتیں اختصار کے ساتھ، ایک تو ہوائی جہاز کے سانحے کے بارے میں، میں ایک بار پھر تعزیت پیش کرتا ہوں، اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔ اس سانحے میں کچھ ابہامات موجود ہیں۔ میں شکر گزار ہوں سپاہ پاسداران کے کمانڈروں کا جنہوں نے تفصیلات بیان کیں، عوام کے سامنے کچھ چیزوں کی تشریح کی، لیکن اس سانحے کی تحقیقات جاری رہنا چاہئے اور اس طرح کے واقعات کا پوری سنجیدگی کے ساتھ سد باب کیا جانا چاہئے۔ سانحے پر آخر تک کارروائی جاری رکھنا ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری اس طرح کے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنا ہے۔

دوسری بات انتخابات سے متعلق ہے۔ میں انتخابات کے بارے میں ان شاء اللہ بعد میں بھی بات کروں گا۔ تاہم آج یہ عرض کرنا ہے کہ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! عزیز ملت ایران! ملت ایران کا میدان میں موجود رہنا طاقت کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے اور یہ موجودگی مختلف جگہوں پر ہے۔ ان میں ایک پلیٹ فارم انتخابات کا ہے۔ انتخابات میں ملت ایران کی شرکت ملک کی حفاظت کی ضامن بنتی ہے اور دشمن کو مایوس کرتی ہے۔ دشمنوں کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ گوناگوں حیلوں اور بہانوں کے ذریعے انتخابات کے تعلق سے عوام کا جوش و جذبہ ختم کر دیں۔ میں یہ عرض کروں گا کہ عوام پورے جوش و جذبے کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوں۔ انتخابات کے گوناگوں مسائل کے بارے میں کچھ انتباہات بھی ہیں، زندگی رہی تو آئندہ دنوں میں پیش کر دوں گا۔ آج میں بس اس موضوع کا ذکر کرنا چاہتا تھا۔ بہت محتاط رہئے کہ دشمن اس میدان میں اپنی مرضی پوری کرنے یعنی انتخابات میں عوام کی شرکت کو بے رنگ بنا دینے میں کامیاب نہ ہونے پائے!

 

عربی خطبے کا اردو  ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و صلّی الله علی محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین.

میں علاقے کی تاریخ کے اس  حساس موقع پر آپ عرب زبان بھائیوں سے اختصار کے ساتھ کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ان دنوں ایران کے ایک عظیم شجاع کمانڈر اور عراق کے ایک مخلص و ایثار پیشہ مجاہد کو ضمیر فروش امریکی فوجیوں اور امریکہ کے دہشت گرد صدر کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ یہ مجرمانہ عمل میدان جنگ میں ہونے والے مقابلے میں نہیں بلکہ بالکل بزدلانہ انداز  میں انجام دیا گیا۔ شہید سلیمانی وہ شخص تھے جو مثالی شجاعت کے ساتھ فرنٹ لائن پر اور خطرناک ترین جگہوں پر جا پہنچتے تھے اور شجاعت کے ساتھ لڑتے تھے۔ وہ شام اور عراق میں داعش کے دہشت گر عناصر اور دیگر دہشت گردوں کی شکست کا سب سے موثر سبب تھے۔ امریکیوں نے جنگ میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے بزدلی سے طیارے کے ذریعے اس وقت جب وہ حکومت عراق کی دعوت پر بغداد ایئرپورٹ پہنچے تھے ان پر حملہ کیا اور ان کا اور ان کے ساتھیوں کا پاکیزہ خون بہایا۔ ایک بار پھر ایران اور عراق کے فرزندوں کا خون آپس میں مل گیا اور یہ خون راہ خدا میں بہایا گیا۔

ایران کی  پاسداران انقلاب فورس نے سر دست ایک جوابی وار کیا اور امریکی چھاونی کو اپنے میزائلوں سے تباہ کر دیا اور اس ظالم و متکبر حکومت کی ہیبت و آبرو کو مٹی میں ملا دیا جبکہ اس کو دی جانے والی اصلی سزا علاقے سے اس کی بے دخلی ہے۔ ایرانی عوام نے دسیوں لاکھ کی تعداد میں جمع ہوکر ان دو عظیم مجاہدین کو بے مثال انداز میں الوداع کہا۔ عراق کے عوام نے مختلف شہروں میں بڑے احترام و عقیدت سے ان کے جلوس جنازہ میں شرکت کی جبکہ کئی ملکوں میں عوام نے اپنے پرجوش اجتماعات میں اپنے جذبات اور لگاؤ کا اظہار کیا۔

ایران اور عراق کے عوام کو ایک دوسرے سے بد ظن کرنے کی خبیثانہ کوششیں تو بہت کی گئیں، پیسہ پانی کی طرح بہایا گيا، غیر ذمہ دار قسم کے افراد کو استعمال کیا گیا، ایران میں ملت عراق کے خلاف اور عراق میں ملت ایران کے خلاف شیطانی پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس عظیم شہادت نے ان تمام شیطانی کوششوں اور شیطانی وسوسوں کو بے اثر کر دیا۔

میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی طاقت، ہماری اور آپ کی طاقت بدعنوان مادہ پرست طاقتوں کی ظاہری ہیبت کو مغلوب کر سکتی ہے۔ مغربی طاقتیں سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے، فوجی ہتھیاروں، جھوٹے پروپیگنڈے اور عیارانہ سیاست کے ذریعے اس علاقے کے ممالک پر مسلط  ہو گئیں اور جب تک کسی ملک میں عوامی تحریک کی وجہ سے انھیں باہر نکلنے پر مجبور نہیں ہونا پڑا تب تک انھوں نے جہاں تک ممکن ہوا سازشوں، انٹیلیجنس اثر و رسوخ اور سیاسی و اقتصادی تسلط جاری رکھا، مہلک سرطان یعنی صیہونی حکومت کو مغربی ممالک کے قلب میں جاگزیں کر دیا اور اس علاقے کے ممالک کے لئے دائمی خطرہ پیدا کر دیا۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد غاصب حکومت پر سخت سیاسی و عسکری ضربیں پڑیں اور اس کے بعد تو استکباری قوتوں میں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی عراق اور شام سے لیکر غزہ و لبنان  تک اور افغانستان سے لیکر یمن تک یکے بعد دیگر شکستوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گيا۔ دشمن کے ذرائع ابلاغ ایران پر نیابتی جنگ کا الزام لگاتے ہیں، یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ علاقے کی قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ علاقے کا مستقبل یہ ہے کہ اسے امریکہ کے استعماری تسلط سے نجات ملے گی اور باہر سے آنے والے صیہونیوں کی حکمرانی کے چنگل سے فلسطین کو رہائی حاصل ہوگی۔

قوموں کی بلند ہمتی ایسی ہونی چاہئے کہ اس منزل مقصود تک رسائی جلد از جلد ہو۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ تفرقے کے علل و اسباب کو ختم کرے۔ علمائے دین کا اتحاد جدید اسلامی طرز زندگی کے لئے اسلامی راہ حل تلاش کر سکتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے باہمی تعاون سے سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ  ملے گا اور جدید تمدن کی بنیادیں تیار ہوں گی۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی ہم آہنگی سے ہماری عمومی ثقافت کی بنیادی طور پر اصلاح ہو سکے گی۔ ہماری مسلح فورسز کا باہمی رابطہ پورے علاقے کو جنگ اور جارحیت سے محوظ بنا سکتا ہے۔ ہمارے بازاروں کے رابطے ہماری معیشتوں کو بیرونی لٹیری کمپنیوں کے تسلط سے باہر نکال سکتے ہیں۔ ہمارے عوام کی ایک دوسرے کے ملکوں میں آمد و رفت سے ہم آہنگی و ہم فکری اور وحدت و دوستی کا ماحول پیدا ہوگا۔ ہمارے اور آپ کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ اپنی معیشت کو ہمارے ملکوں کے وسائل و ذخائر سے، اپنے وقار کو ہماری قوموں کی ذلت و رسوائی کے ذریعے اور اپنی بالادستی کو ہمارے باہمی تفرقے سے یقینی بنائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اور آپ کو ایک دوسرے کے ذریعے نابود کر دیں۔

امریکہ چاہتا ہے کہ سفاک اور جرائم پیشہ صیہونیوں کے سامنے فلسطین نہتا رہے، شام اور لبنان اس کے اشارے پر کام کرنے والی حکومتوں کے زیر اقتدار رہیں اور عراق اور اس ملک کی تیل کی دولت امریکہ کے اختیار میں رہے۔ ان منحوس اہداف کو حاصل کرنے کے لئے وہ بڑے سے بڑا ظلم اور شر انگیزی کرنے پر آمادہ ہے۔ شام کا کئی سال پر محیط سخت امتحان، لبنان میں پے در پے فتنے، عراق میں دائمی اشتعال انگیزی اور تخریبی کارروائیاں اس کی مثالیں ہیں۔

حشد الشعبی کے شجاع کمانڈر شہید ابو مہدی اور سپاہ پاسداران کے عظیم کمانڈر شہید سلیمانی کو کھلے عام دہشت گردانہ کارروائی میں قتل کیا جانا، عراق میں جاری فتنہ انگیزی کم نظیر نمونہ ہے۔ وہ عراق میں اپنا منحوس منصوبہ فتنہ پیدا کرکے، خانہ جنگی شروع کرواکے، آخرکار عراق کو تقسیم کرکے اور مومن، مجاہد اور محب وطن فورسز کو ختم کرکے پورا کرنا چاہتا ہیں۔ ان کی بے شرمی کا نمونہ یہ ہے کہ عراق کی پارلیمنٹ میں امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کا بل پاس ہونے کے بعد انھوں نے جو خود کو جمہوریت کا پشت پناہ ظاہر کرتے تھے، تمام تکلفات کو چھوڑ کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم عراق میں ٹھہرنے کے لئے آئے ہیں، یہاں سے نہیں جائیں گے۔

دنیائے اسلام کو اب نیا باب رقم کرنا چاہئے۔ بیدار ضمیروں اور مومن دلوں کو چاہئے کہ قوموں کے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور سب یہ جان لیں کہ قوموں کی نجات کا واحد راستہ تدبیر، استقامت اور دشمن سے نہ ڈرنا ہے۔ اللہ تعالی اپنی رحمت و نصرت مسلم اقوام کے شامل حال فرمائے۔

سوره‌ کوثر؛ «اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔ ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا۔ تو آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز ادا کیجئے اور قربانی دیجئے۔ آپ کا دشمن خود مقطوع النسل ہوگا۔

و السّلام علیکم و رحمةالله.

 

(1) سورۂ ابراہیم، آيت نمبر پانچ کا ایک حصہ: اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا (اور کہا) کہ (اےموسٰی!) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔

(2) سورۂ ابراہیم، آيت نمبر پانچ کا ایک حصہ: اور بیشک اس (یاد دہانی) میں ہر صابر و شاکر (انسان) کے لیے نشانیاں ہیں۔

(3) سورۂ ابراہیم، آيت نمبرچھے کا ایک حصہ: اور جب موسی نے اپنی قوم (کے لوگوں) سے کہا کہ اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمھیں آل فرعون سے نجات دي۔

(4) سورۂ ابراہیم، آيت نمبر سات کا ایک حصہ

(5) سورۂ ابراہیم، آيت نمبر آٹھ، اور موسٰی نے کہا کہ اگر تم اور وہ سب لوگ جو زمین میں (رہتے) ہیں کفر کرنے لگیں تو بے شک اللہ (ان سب سے) بے نیاز اور لائق حمد و ثنا ہے۔

(6) سورۂ توبہ، آيت نمبر چالیس کا ایک حصہ، غمگین نہ ہو کہ یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

(7) سورۂ شعراء، آيت نمبر اکسٹھ کا ایک حصہ، یقینا ہم مصیبت میں مبتلا ہونے والے ہیں۔

(8)  سورۂ شعراء، آيت نمبر باسٹھ کا ایک حصہ، ایسا نہیں ہے، بے شک میرے ساتھ میرا اللہ ہے (اور) وہ عنقریب مجھے راہ دکھائے گا۔

۹سورہ شعراء، آیت نمبر ۶۱ کا ایک حصہ؛ «… ہم یقینا پکڑے جائیں گے۔ …»

۱۰سوره‌ شعراء،  آیت نمبر ۶۲ کا ایک حصہ؛ «… ایسا نہیں ہے، کیونکہ میرا پروردگار میرے ساتھ ہے اور بہت جلد میری رہنمائی کرے گا۔»

۱۱سوره‌ توبہ، آیت نمبر۴۰ کا ایک حصہ؛ «… اللہ ہمارے ساتھ ہے۔…»

۱۲حاضرین کی طرف سے نعرہ تکبیر

۱۳حاضرین کے نعرے

۱۴حاضرین کے نعرے

۱۵حاضرین کے نعرے

۱۶ سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر ۵ کا ایک حصہ؛ « … انھیں اللہ کے دنوں کی یاددہانی کراؤ »

۱۷سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۵۴؛ «اور دشمنوں نے مکر و فریب اختیار کیا، تو اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور بے شک اللہ ایسی خفیہ تدبیروں میں سب سے بڑھ کر ہے۔

۱۸حاضرین کے نعرے

۱۹حاضرین کے نعرے

۲۰حاضرین کے نعرے

۲۱سوره عصر؛ «اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

زمانے کی قسم، یقینا انسان بڑے نقصان میں ہے،

سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیتے رہے، ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے