اغیار کا تمدّنی تسلّط اور اس کا سدّباب، امام خمینیؒ

اغیار کا تمدّنی تسلّط

یہ مغرب یا مشرق جو تمام اسلامی ممالک پر مسلّط ہے، اہم ترین تمدّنی تسلط ہے۔ ان مراکز میں ہمارے بچے تربیت ہوتے تھے اور ان کی ایسی تربیت ہوتی تھی کہ جب یونیورسٹی سے باہر نکلتے تھے تو مغرب کے طرفدار ہوتے تھے یا مشرق کے طرفدار ہوتے تھے۔

یہی جوان جنہیں آپ ملاحظہ کررہے ہیں اس وقت مختلف ممالک میں یا چین کے لیے کام کرتے ہیں یا روس کے لیے کام کرتے ہیں یا امریکہ کے لیے کام کرتے ہیں اور اس وقت خصوصاً ایران میں سرگرم عمل ہیں، ان میں سے اکثر انہیں یونیورسٹیوں سے باہر آئے ہیں یعنی اس تربیت کے ساتھ باہر ائے ہیں کہ خود کچھ بھی نہیں ہیں!

خواہ وہ لوگ ہوں جو قلم فرسائی کرتے تھے اور غرب زدہ تھے، خواہ وہ لوگ ہوں جو  ہمارے اسکولوں میں مشغول تربیت تھے، یہ سب اس بات پر متفق تھے کہ ہم سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا! ہمیں مغرب کے پیچھے چلنا چاہیے یا مشرق کے پیچھے۔ سب سے بڑی مصیبت مسلمانوں کے لیے یہی تمدّن ہے جو مسلمانوں کے درمیان رائج ہے اور ہمارے نوجوانوں کو یا اِس طرف کھینچ رہا ہے یا اٗس طرف کھینچ رہا ہے۔

 

اسلامی غنی تمدّن اور مستقل تہذیب کو پھیلانے کی ضرورت

ہم سارے مسلمانوں کی ذمّہ داری ہے، علمائے اسلام  کا فریضہ ہے، مسلمان دانشوروں اور مسلمانوں کے درمیان تقریریں کرنے والوں  اور لکھنے پڑھنے والوں کا فریضہ ہے کہ ان اسلامی ممالک کو الٹی میٹم دین کہ ہمارے پاس ایک غنی تمدن ہے اور ہمارا تمدن اور تہذیب ایسی تھی جو باہر صادر ہوئی ہے اور انہوں نے ہم سے حاصل کیا ہے۔

وہ کتابیں جو اسلامی ممالک میں لکھی گئی انہوں نے ان کتابوں سے استفادہ کیا۔ اسالم نے مسلمانوں کو سب کچھ عطا کیا، ہر چیز عطا کی، قرآن ہے جس کے اندر سب کچھ موجود ہے، لیکن افسوس ہم نے اس سے استفادہ نہیں کیا، مسلمانوں نے اسے چھوڑ دیا اور روگردانی اختیار کر لی۔ مسلمان خود کو پیدا کریں اور تلاش کریں، سمجھیں کہ خود ان کی بھی اپنی کوئی بھی تہذیب ہے۔

 

ظلم اور ظالم کے خلاف مزاحمت

مسلمانوں کو ایک ہو کر بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے، اگر مسلمان ایک ہوجائے تو کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ظلم سے مقابلہ کریں، جب میں پیریس میں تھا تو اس وقت بھی بعض خیر اندیش میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ کو تھوڑا سا اپنے موقف میں لچک پیدا کرنی چاہیے۔

میں ان سے کہتا تھا کہ ہم اپنے فرائض پر عمل کر رہے ہیں، ہمارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا ہے، ہم خدا کی جانب سے مامور ہیں کہ ظلم کا مقابلہ کریں۔ان آدم خوروں اور خونخواروں سےمقابلہ کریں،ہمارے اندر جتنی قدرت ہے ہم مقابلہ کریں گے۔

مسلمانوں کو ذمّہ داری کا احساس کرنا ہوگا

اگر ہم کامیاب ہوئےکیا کہنا،االحمد للہ، اور  اگر کامیاب نہیں بھی ہوئےپھر بھی الحمد للہ کہ ہم نے اپنے فریضے پر عمل کیا۔مسلمانوں کو اپنی ذمّہ داری محسوس کرنی چاہیے،خود کا ذمّہ دار اور مامور جاننا چاہیے۔ یہ نہ سوچیں کہ اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو کامیاب نہیں ہیں۔ہم الحمد للہ ہر جگہ کامیاب ہیں۔ ہمارے لیے احدی الحسنیین ہے، دو میں سے ایک نیکی ہمیں ہر صورت میں حاصل ہے، بڑی طاقتوں کی شکست اور ملتوں کی بیداری بخش تحریک انقلاب۔

 

کتاب: خطابات( مجموعہ اقتباس صحیفہ امام رح) جلد 4، ص 33 الی 36 سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے