احیائے عاشوراء کے لئے امام سجادؑ کی جدوجہد از شھید مطہری

خدمتِ اسلام طریقوں کی محتاج نہیں!

حضرت علی بن الحسینؑ کے لئے اپنے والد گرامی حضرت اباعبد اللهؑ کی طرح مواقع میسر نہیں آئے، اسی طرح امام جعفر صادقؑ کو جو بے نظیر موقع میسر آیا آپؑ کو میسر نہیں آسکا۔جو کوئی چاہتا ہے کہ اسلام کا خادم بنے اس کے لئے ہر پل مواقع موجود ہیں، بس ان کی شکل بدل جاتی ہے۔ ملاحظہ کریں کہ امام سجادؑ نے دعا کی صورت میں شیعت کو کیا اعزاز بخشا!اور اسی حال میں اسی دعا کے لباس میں امام اپنی شرعی ذمہ داری ادا کیا کرتے تھے۔

 

احیائے عاشوراء کے لئے امام سجادؑ کی انتہک محنت!

بعض کے خیال میں امام زین العابدینؑ نے اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد، اپنی زندگی میں چونکہ تلوار سے قیام نہیں کیا پس انہوں نے واقعہ کربلا کو(قیام نہ کرکے)جانتے بوجھتے فراموش ہونے دیا۔ ہرگز نہیں!آپؑ نے اپنے والد گرامی کے قیام کے اثر کو زندہ رکھنے کے لئے ہر ممکنہ موقع کا استعمال کیا۔

 

گریہِ امام سجادؑ کی کیا وجہ تھی؟

اس رونے کی کیا وجہ تھی جو وہ یاد کرکے رویا کرتے تھے؟کیا فقط ان کی کیفیت اس انسان کی سی تھی کہ جس کا دل غمگین ہو اور بے مقصد گریہ کرے؟یا پھر یہ چاہتے تھے کہ اس واقعے کو زندہ رکھیں اور لوگوں کے ذہنوں سے یہ سوال مٹ نہ جائے کہ امام حسینؑ نے کیوں قیام کیا؟اور کن لوگوں نے انہیں قتل کیا؟

 

امام سجادؑ ، اٹھارہ یوسفوں کے عزادار!

امام سجاد کا ہدف واقعہ کربلا کو زندہ رکھنا تھا، یہی وجہ تھی کہ آپ اکثر اوقات رویا کرتے اور بے پناہ رویا کرتے تھے۔ ایک روز آپؑ کے ایک خادم نے پوچھا، میرے آقا!کیا وہ وقت نہیں آیا کہ آپ گریہ کرنا ختم کردیں؟(جب وہ جان گیا کہ آپ اپنے عزیزو کے لئے گریہ کرتے ہیں)۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ کیا کہہ رہے ہو!حضرت یعقوبؑ کے پاس ایک سے زیادہ یوسف نہیں تھا۔ قرآن ان کے جذبات کو یوں بیان کرتا ہے”وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ”، میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اٹھارہ یوسفوں کو زمین پہ گرتے دیکھا ہے!

 

 

عہد معارف ، شہید مطہری

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے