اسلام اور حجاب رہبر معظم کی نگاہ میں

مردوں نے اپنی جسمانی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر عورت کا ہمہ جانبہ استحصال کیا، رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلّہ اس بارے میں یوں فرماتے ہیں: یہاں ایک بنیادی نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ میں مردوں کے مزاج ،عورتوں کی بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے قوی اور جسم مضبوط رہے ہیں۔
اِسی وجہ سے انہوں نے اہم ترین کاموں اور مختلف قسم کی ذمہ داریوں کو اپنے عہدے لیے ہوا تھا اور یہی وہ چیز ہے کہ جس نے مردوں کیلئے اپنی جنس مخالف سے اپنے فائدے کیلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کیے ہیں۔
آپ دیکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد میں سے کون نہیں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار میں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغیرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوئ استفادہ ،دست درازی اور بے آبروئی کیلئے اقدامات نہ کیے ہوں؟!

 

مرد اور عورت کے فاصلے پر اسلام کی تاکید

یہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپنی پوری قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاری کرتا ہے اور معاشرے میں مرد وعورت کے درمیان حد اور فاصلے کو قرار دیتا ہے اور ان کے درمیان تعلقات میں سختی و پابندی کرتا ہے۔ اسلام کی رو سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کی بے احترامی کر ے ، کیونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔

 

مرد اور عورت کا سماجی فاصلہ

گھر کے گلشن میں مرد و عورت کا باہمی رابطہ کسی اور قسم کا ہے اور معاشرے میں کسی اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے میں مردو عورت کے درمیان حائل فاصلوں کے قانون کا خیال نہ رکھا جائے تو نتیجے میں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے میں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھی کبھار ممکن

 ہے ظلم ہو۔

 

 اسلامی ثقافت ، مرد وعورت کے درمیان عدم اختلاط کی ثقافت ہے۔ ایسی زندگی، خوشبختی سے آگے بڑھ سکتی ہے اورعقلی معیار ومیزان کی رعایت کرتے ہوئے صحیح طریقے سے حرکت کرسکتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختی کی ہے۔

اسلام کی رو سے اگر معاشرے میں (نامحرم) مرد اور عورت کے درمیان فاصلے اور حد کو عبور کیا جائے،خواہ یہ خلاف ورزی مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے میں سخت گیری سے کام لیا ہے۔ اسی نکتے کے بالکل مقابل وہ چیز ہے کہ جسے ہمیشہ دنیا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔

صاحبان زر وزمین اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتین ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کیلئے زندگی بسر کی، یہی چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمیانی فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے۔ البتہ خود یہ امر معاشرتی زندگی اورمعاشرتی اخلاق کیلئے بہت برا اور مُضّر ہے۔ یہ فکر و خیال اورعمل معاشرتی حیا و عفت کیلئے باعث زیاں اور گھر و گھرانے کیلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کی بنیادوں کو متزلزل کرتی ہے۔

 

 

 حجاب اور مغرب کی اسلام دشمنی

اسلام، خاندان اورگھرانے کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہے۔ مسلمانوں سے مغرب کی تمام پروپیگنڈا مشینریوں کا اختلاف اورجرح و بحث اِسی مسئلے پر ہے۔ آپ دیکھئے کہ اہل مغرب حجاب و پردے کے مسئلے پرکتنی حسّاسیت ظاہر کرتے ہیں۔

 

حجاب و پردے میں اسلام کی سنجیدگی

 اگر یہ حجاب ، اسلامی ممالک میں ہو اُسے بررا شمار کرتے ہیں، اگرعرب ممالک کی یونیورسٹیز و جامعات میں ہو کہ جہاں جوان لڑکیاں اپنی معرفت، آگاہی اور اپنے تمام میل و اختیار سے حجاب کا انتخاب کرتی ہیں ،تو اپنی حساسیت ظاہر کرتے ہیں اور اگر سیاسی پارٹیوں اور جماعتوں میں حجاب ہو تو بھی ان کی بھنویں چڑھ جاتی ہیں۔

حتی اگرخود اُن کے اسکولوں میں لڑکیاں باحجاب ہوں تو باوجود یہ کہ یہ لڑکیاں اُن کے ملک کی باشندہ ہیں لیکن پھر بھی یہ لوگ حجاب کی نسبت حسا س ہوجاتے ہیں۔ پس اختلاف کی جڑ یہیں ہے۔ البتہ خود یہ لوگ اپنی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے ہر وقت فریاد بلند کرتے رہتے ہیں کہ اسلام میں یا اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کو پائمال کیا جارہا ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ خود اُن کو اس مسئلے کا یقین نہیں ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے حقوق کمزور اور پائمال ہونے کے بجائے اُن کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔

اسلامی انقلاب اورحقوق نسواں

آپ توجہ کیجئے کہ آج ایران کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور جامعات میں خواتین طالب علموں اور تحصیل علم میں مصروف لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے یا زمانہ طاغوت میں ؟ توآپ دیکھیں گے کہ تعداد آج زیادہ ہے ۔ حصول تعلیم کے میدان میں اچھی پوزیشن اور اچھے نمبر (درجات) لانے والی لڑکیوں کی تعداد آج زیادہ ہے یا شاہی حکومت کے زمانے میں تھی۔
وہ خواتین جو ہسپتالوں ، صحت کے مراکز اورمختلف علمی اداروں میں کام اور تحقیق میں مصروف عمل ہیں آج اُن کی تعداد زیادہ ہے یا گزشتہ زمانے میں زیادہ تھی؟ وہ خواتین جو ملکی سیاست اور بین الاقوامی اداروں میں اپنی شجاعت و دلیری کے ذریعے اپنے ملک و قوم کے حقوق اور موقف کا دفاع کرتی ہیں، اُن کی تعداد آج زیادہ ہے یا انقلاب سے قبل اُن کی تعداد زیادہ تھی؟۔
آپ دیکھیں گے کہ ان کی تعداد آج پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔شاہی حکومت کے زمانے میں خواتین مختلف گروپوں کی شکل میں سیاحت اور سفر کیلئے جاتی تھیں اور یہ سفر بہت اعلیٰ پیمانے پر ہوتے تھے لیکن ہوس رانی، شہوت پرستی اور اپنی وضع قطع اورزینت و آرائش کو دوسروں کو دکھانے کیلئے۔
لیکن آج کی مسلمان عورت بین الاقوامی اداروں ، بین الاقوامی کانفرنسوں، علمی مراکز اور جامعات میں علمی ،سیاسی اور دیگر قسم کی فعالیت انجام دے رہی ہے اور انہی چیزوں کی قدرو قیمت ہے۔

مغربی اور مغرب زدہ معاشرے میں خواتین کی صورتحال

طاغوتی ایام میں ہماری لڑکیوں کو ’’آئیڈیل لڑکی‘‘اور ’’بہترین مثال‘‘ کے نام سے خاندان اور گھرانوں کے پاکیزہ اور پیار ومحبت سے لبریز ماحول سے باہر کھینچ کر برائیوں کی کیچڑ میں ڈال دیتے تھے لیکن آج ایسی کوئی بات نہیں۔ حقوق نسواں کہاں ضایع ہوتے ہیں؟ جہاں خواتین سے تحصیل علم، مناسب ملازمت ، اُن کی فعالیت اور خواتین کی خدمت کرنے جیسے اہم امور کے دروازے خواتین پر بند کردیے جاتے ہیں اور جہاں اُنہیں تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

امریکی معاشرے میں عورت کی تحقیر

 جائیے اور امریکی معاشرے کو دیکھئے! آپ مشاہدہ کریں گے کہ اُس معاشرے میں عورت کی کتنی تحقیر کی جاتی ہے! گھر کی عورت ، شوہر کی طرف سے اہانت کا نشانہ بنتی ہے اورماں اپنے بچوں کی طرف سے تحقیر کا۔ ماں کے حقوق کہ جس طرح اسلامی مراکز اور معاشروں میں موجود ہیں، اُس معاشرے میں اُن کا تصور بھی ممکن نہیں۔

 

خواتین، معاشرہ اور حجاب

میں نے ایک بین الاقوامی فورم میں بہت ہی اہم اور معروف تقریر میں خاندان اور گھرانے سے متعلق گفتگوکی۔ بعد میں جو رپورٹ ہمیں ملی وہ اِس بات کی عکاسی کررہی تھی کہ اُس ملک کے باشندوں نے میری تقریر کے اُسی حصے کو بہت توجہ سے سنا اور بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار کیا ۔ وجہ یہ ہے کہ اُن ممالک میں خاندان اور گھرانوں کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے اور وہاں کے معاشرتی نظام میں خواتین مختلف قسم کی ظلم کی چکی میں پِس رہی ہے ۔
لیکن ہمارے یہاں مرد و عورت کے درمیان ایک حد اورفاصلہ موجود ہے۔ اِس حد اورفاصلے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد وعورت ایک جگہ علم حاصل نہیں کریں،ایک جگہ عبادت انجام نہ دیں اور ایک جگہ کاروبار اورتجارت نہ کریں، اس کی مثالیں ہمارے یہاں زیادہ موجود ہیں ، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنی معاشرتی زندگی میں اپنے اخلاق و کردار کیلئے اپنے درمیان حد اور فاصلے کو قرار دیں اوریہ بہت اچھی چیز ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین (مردوں کے ساتھ معاشرتی تعلقات کے باوجود) اپنے حجاب کی حفاظت کرتی ہیں۔ ہماری عوام نے حجاب کیلئے چادر کو منتخب کیا ہے۔ البتہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’’حجاب و پردے کیلئے صرف چادرکو ہی ہونا چاہیے اورچادر کے علاوہ کوئی اور چیز قابل قبول نہیں ہے‘‘، ہاں ہم نے یہ کہا ہے کہ ’’چادر دوسری چیزوں سے زیادہ حجاب کیلئے موزوں اور بہترین ہے‘‘۔
ہماری خواتین اِس بات کی خواہاں ہیں کہ وہ اپنے پردے کی حفاظت کریں لہٰذا وہ چادر کو پسند کرتی ہیں۔ چادر ہماری خواتین کا قومی لبا س ہے۔ چادر قبل اس کے کہ اسلامی حجاب ہو، ایک ایرانی حجاب ہے۔ چادر ہماری عوام کا منتخب کیا ہوا حجاب اور خواتین کا قومی لباس ہے۔

اسلامی انقلاب اور خواتین کی ترقی

ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ،مسلمان اورباایمان خواتین کی تعدادبہت زیادہ ہے جو یا تحصیل علم میں مصروف ہیں یا ملکی جامعات میں اعلیٰ درجے کے علوم و فنون کو بڑے پیمانے پر تدریس کررہی ہیں اوریہ بات ہمارے اسلامی نظام کیلئے باعث افتخار ہے۔
الحمد للہ ہمارے یہاں ایسی خواتین کی تعدادبہت زیادہ ہے کہ جو طب اور دیگر علوم میں ماہرانہ اورپیشہ وارانہ صلاحیتوں کی مالک ہیں بلکہ ایسی بھی خواتین ہیں کہ جنہوں نے دینی علوم میں بہت ترقی کی ہے اور بہت بلند مراتب ودرجات عالیہ تک پہنچی ہیں۔
اصفہان میں ایک بہت ہی عظیم القدرخاتون گزری ہیں ’’اصفہانی بانو‘‘ کے نام کی کہ جو مجتہدہ ، عارف و فقیہ تھیں۔ اُس زمانے میں صرف وہ تنِ تنہا تھیں لیکن آج بہت سی ایسی جوان لڑکیاں ہیں جو مستقبل قریب میں علمی، فلسفی اور فقہی اعلیٰ مقامات تک رسائی حاصل کرنے والی ہیں اور ایسی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ خواتین ہمارے اسلامی نظام کیلئے باعث افتخار ہیں۔ اِسے کہتے ہیں پیشرفت زن اور خواتین کی ترقی۔

کتاب عورت گوہر ہستی، تالیف رہبر معظم سید علی خامنہ ای، سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے