اسلامی نظام اخلاق میں عبادت کا مقام از شھید مطری

عبادات اسلام کی تربیتی اسکیم کا حصہ ہیں

اسلام میں عبادات اصل اور بنیاد کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تربیتی سکیم کا حصہ بھی ہیں۔ اس بات کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ عبادات اصل اور بنیاد کی حامل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ہر پہلو سے قطع نظر، انسانی زندگی کے مسائل سے قطع نظر خود عبادت مقاصد خلقت میں سے ہے۔عبادت انسان کے حقیقی کمال اور تقرب الٰہی کا ایک وسیلہ ہے۔

ایسی چیز جو خود انسان کے کمال کا مظہر ہو اور کود ہدف اور غایت ہے اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی دوسری چیز کا مقدمہ اور وسیلہ ہو۔ لیکن اس کے باوجود عبادات اس اصالت کہ حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری چیز کا مقدمہ بھی ہیں۔ یعنی اسلام کی تربیتی اسکیم کا حصہ ہیں۔

اسلام جو اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے افراد کی تربیت کرنا چاہتا ہے، وہ اس مقصد کے لئے جو وسائل اختیار کرتا ہے ان میں سے ایک وسیلہ عبادت ہے اور اتفاق سے یہ وسیلہ انسان کے اخلاق اور روح پر ہر دوسرے وسیلے سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔

ایثار و قربانی اخلاقی امور کا محور ہیں

اخلاقی امور کا محور ’’ ایثار و قربانی‘‘ اور اپنے فائدے اور مفاد کوپس پشت رکھنا ہے۔جس طرح ’’ حمیہ‘‘ یعنی پرخوری سے اجتناب، جسمانی سلامتی کا ایک اصول ہے جو جسمانی صحت سے متعلق تمام خوبیوں کی اساس اور بنیاد ہے۔ اسی طرح اخلاق میں بھی ایک چیز ہے جو تمام اخلاقی امور کی اصلِ اساس ہے اور وہ ہے اپنی ذات سے گزر جانا، اپنی ذات کو بھلا دینا، انانیت کی اسیری سے آزاد ہوجانا اور ’’ میں‘‘ کو ترک کر دینا۔

انسانیت کی سب سے بڑی مشکل!

وہ مشکل جس سے انسانیت اخلاقی مسائل میں بھی دوچار ہے اور اجتماعی مسائل میں بھی ان کا سامنا کر رہی ہے، وہ ان اصولوں کو روبہ عمل لانے کا مسئلہ ہے۔ یعنی کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اخلاق سے نا واقف ہو یا اس بات کا علم نہ رکھتا ہو کہ عدالت کس درجہ ضروری ہے۔ لیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ان اصولوں پر عمل کا مرحلہ آتا ہے۔

جس وقت انسان کسی اخلاقی اصول کی پابندی کرنا چاہتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ اسکا مفاد اور منفعت ایک طرف ہے اور اس اخلاقی اصول کی پابندی دوسری طرف۔ وہ دیکھتا ہے کہ راست گوئی ایک طرف ہے اور منفعت اور فائدہ دوسری طرف۔ یا تو وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے اور نفع حاصل کرے یا پھر سچ بولے اور امانت داری کا ثبوت دے اور اپنے منافع کو پس پشت ڈال دے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عدل و اخلاق کا دم بھرنے والا انسان بھی عمل کے موقع پر اخلاق اور عدالت کی مخالف راہ اختیار کرتا ہے۔

 

کتاب: عبادت و نماز، ص ۳۶ الی ۳۸، از شہید مطہری؛ سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے