اسلام میں شادی بیاہ کی شرائط، شہید مطہریؒ

شادی کے لیے بلوغ اور رشادت ضروری

اس سلسلے میں اسلام کی نظر میں چند باتیں طے شدہ ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی اگر اقتصادی طور پر خود کفیل ہوں اور بالغ و عاقل ہونے کے ساتھ رشید بھی ہوں۔ یعنی معاشرتی لحاظ سے ان کا فکری معیار اس قدر ہو جس کی بنیاد پر وہ اپنے مال کا تحفظ و نگہداشت کر سکیں۔

ان کا سرمایہ ان کے ہاتھ میں رہ سکے تو ماں یا باپ، ماں یا شوہر، بھائی یا  کسی دوسرے آدمی کو ان پر ان پر نظارت یا دخل اندازی کا حق نہیں ہو سکتا۔

دوسری بات شادی کے بارے میں ہے، اولاد بالغ ہونے کی عمر پر پہنچ جائے، عقل و رشد بھی ہو تو اپنے بارے میں وہ خود مختار ہیں، کسی کو ان کے معاملات میں دخل دینے کا حق نہیں۔

 

کنواری لڑکی کی رضامندی ضروری ہے

لڑکیوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی ایک مرتبہ شوہر کرچکی ہے اور اب بیوہ ہے تو وہ بھی لڑکے کی طرح خود مختار ہے اور کسی کو ان کے معاملے میں دخل دینے کا حق نہیں، ہاں اگر دوشیزہ ہے اور اس کا پہلا نکاح ہے تو باپ کو مکمل اختیار نہیں ہے، لڑکی کا عندیہ اور اس کی رضا مندی کے بغیر جس کے ساتھ بیاہنا چاہے نہیں بیاہ سکتا۔

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ہم نے دیکھا کہ باپ نے بیٹی کی رائے کے بغیر نکاح کر دیا تو آپ نے فرمایا: پسند نہیں تو دوسرے کے ساتھ شادی کر سکتی ہو”۔

 

باپ کا حق ولایت ساقط ہوجاتا ہے

فقہا میں اس نقطہ نظر سے اختلاف ہے کہ  آیا دوشیزہ ( کنواری) لڑکیاں باپ کی رضامندی حاصل کیے بغیر شادی کا حق نہیں رکھتیں؟ یا باپ کا اتفاق رائے کسی طرح شرط صحت نکاح نہیں ہے؟

البتہ ایک مسئلہ قطعی اور مسلّم ہے کہ اگر باپ کسی سبب کے بغیر لڑکی کے نکاح کو منع کریں تو ان کا حق ولایت ساقط ہوجاتا ہے اور باتفاق تمام فقہا، لڑکی انتخاب شوہر میں مکمل آزادی کی مالک ہیں۔

 

کتاب: اسلام میں خواتین کے حقوق، ص  104 الی 105، تالیف شہید مطہری سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے