اسلام میں فقیہ کے اختیارات اور حکومت

امام خمینی ؒ اسلامی حکومیت کی ماہیت اور حاکم کے اختیارات کے سلسلے میں فرماتے ہیں:  اسلام میں قانون حکومت کرتاہے پیغمبر اکرم ؐ  بھی الہی قانون کے تابع تھے آنحضور قانون کےمطابق عمل کرتے تھے خداوند تبارک و تعالی کا ارشاد ہے جو میں چاہتاہوں اگر اسکے خلاف تم عمل کرو گے تو میں تمہارا مؤاخذہ کروں گااورتمہاری شہ رگ کاٹ دوں گا۔ سورہ الحاقہ میں ارشاد ہے «و لو تقوّل علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین» اگر محمدؐ جھوٹی باتیں ہماری نسبت دیتے تو ہم ضرور اسکو اپنے قہر میں گرفتارکرلیتے اور اسکی شاہ رگ کو کاٹ دیتے۔

ولایت فقیہ، ڈکٹیٹرشپ کا نام نہیں

 اگر پیغمبرؐ(معاذ اللہ) ایک ڈکٹیٹر شخص ہوتے یا ایک ایسے شخص ہوتے کہ جس سے لوگ ڈرتے کہ اگر وہ کبھی موقع پاکر مکمل قدرت حاصل کرلیں گے تو ڈکٹیٹری کریں گے نہ کل پیغمبرؐ  ڈکٹیٹر تھے اور نہ آج فقیہ ڈکٹیٹر ہو سکتاہے (صحیفہ نورجلد10ص29)۔

 

فقیہ اہلبیتؑ، عدالت کا مظہر

فقیہ میں استبداد نہیں پایا جاتاہے وہ فقیہ جو ان اوصاف کا حامل ہوتا ہے وہ عادل ہوتا ہے ایسی عدالت جو سماجی عدالت کی مظہر ہو، ایسی عدالت جسمیں جھوٹ کا ایک کلمہ اسکو عدالت سے ساقط کردے گا ، نامحرم پر ایک نظر اس کو عدالت سے گرا دےگی ایک ایسا انسان نہ غلط عمل کرسکتا ہےاورنہ کبھی غلط کرتا ہے۔ (صحیفہ نورجلد11ص133)

 

 اسلامی حاکم کے اختیارات

 اگر ایک لائق انسان جسمیں یہ دو خصلتیں( اسلامی قانون کا علم اور عادل ہونا)  پائی جاتی ہیں حکومت تشکیل دینے کیلئے کمربستہ ہوجائےاور حکومت تشکیل دیدے تو معاشرے کے امور کو چلانے کیلئے اس کو بھی وہی ولایت حاصل ہے جو ولایت رسول اکرم ؐکو حاصل تھی اور تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اسکے حکم کی اطاعت کریں اور اس سلسلے میں یہ وہم غلط ہے کہ معاشرتی اور سماجی امور میں رسول
اکرم ؐ  کے اختیارات حضرت علی ؑ کےاختیارات سے زیادہ تھے اور حضرت علی ؑ کے اختیارات ولی فقیہ کے اختیارات سے زیادہ ہیں البتہ رسول اکرم ؐ  کے فضائل تمام عالم پر محیط ہیں اور انکے بعد حضرت علی ؑ کے فضائل اور کمالات سب سے زیادہ ہیں۔ 
 لیکن معنوی فضائل و کمالات کا زیادہ ہونا حکومتی اختیارات میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتاہے کیونکہ فوج ، سپاہ اور رضاکاردستوں کوتیار کرنے یا گورنروں کو مقرر کرنے یا مالیات وصول کرنے اور اسکو مسلمانوں کے مصالح میں مصرف کرنے میں جواختیارات رسول اکرم ؐیا دوسرے آئمہ (علیہم السلام) کو حاصل تھے خداوند متعال نے انھیں اختیارات کو موجودہ حکومت کیلئے بھی قرار دیا ہے البتہ کوئی شخص معین نہيں ہے بلکہ عنوان (عالم عادل) ہے۔

 

 

ولایت فقیہ، ذمہ داری کا نام ہے!

جب ہم کہتے ہیں کہ وہ ولایت جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یا دوسرے آئمہ (ع) کے پاس تھی وہ غیبت کے دور میں فقیہ عادل کے پاس ہے اور اس سلسلے میں کسی کو اس وہم اور شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ فقہاء کا مقام بھی وہی ہے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یا آئمہ معصومین (علیہم السلام) کا ہے کیونکہ یہاں پر بحث مقام و منزلت سے نہیں ہے بلکہ بحث ذمہ داری اور وظائف سے متعلق ہے۔

 

زانی کی حد100 کوڑے ہے اگر رسول خدا ؐ  یہ حد جاری کریں گے تو150 کوڑے ماریں گے اور حضرت علی ؑجاری کریں گے تو 100 کوڑے ماریں گے اور فقیہ جاری کرےگا تو50 کوڑے مارے گا ؟یا یہ کہ حاکم اجرائی امور کا ذمہ داراور عہدیدار ہے اور اسے خداوند متعال کے حکم کےمطابق حد جاری کرنا چاہیے، چاہیے حاکم رسول خدا ؐ  ہوں ، حضرت علی ؑ ہوں یا حضرت علی ؑکے بصرہ یا کوفہ میں نمایندے یا قاضي ہوں یا موجودہ دور میں فقیہ ۔

 فقہاء عادل بھی حاکم وولی و راہنما ہیں 

رسول اکرم ؐاور حضرت علی ؑ کے اہم وظائف میں سے مالیات ،خمس و زکوۃ ، جزیہ اور خراجیہ زمین کا ٹیکس وصول کرنا ہے رسول خدا ؐ  زکوۃ کتنی وصول کریں گے کیا ایک جگہ سے ایک دسواں حصہ ( 10/1 ) اور دوسری جگہ سے ایک بیسواں حصہ (20/1) وصول کریں گے ؟ حضرت علی ؑ خلیفہ ہوگئے تووہ کیا کریں گے ؟ آپ موجودہ دور میں فقیہ اور نافذ الکلمہ ہوگئے تو آپ کیا کریں گے ؟ کیا ان امور میں رسول اکرم ؐکی ولایت کا حضرت علی ؑ کی ولایت او رعادل فقیہ کی ولایت کے درمیان کوئی فرق ہے ؟۔ خداوند متعال نے رسول اکرم ؐکو تمام مسلمانوں کا ولی قرار دیا ہے اور جب تک وہ حضرت ؐموجود ہیں انکی ولایت حضرت علی ؑ پر بھی جاری ہے آنحضورؐکی ؒلت کے بعد امام ؑکی ولایت تمام مسلمانوں حتی اپنے بعد والے امام ؑپر بھی نافذ ہے یعنی اسکے حکومتی احکامات اور اوامر سب پر نافذ و جاری ہیں اور وہ گورنروں کو منصوب اور معزول کرسکتاہے۔ جیسا کے پیغمبر اسلام ؐ  احکام الہی کے اجراء کرنے اور اسلام کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر مامور تھے اور خداوند متعال نے انکو مسلمانوں کا ہادی ، ولی اور راہنما قرار دیا اور انکی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اسی طؒ فقہاء عادل بھی حاکم وولی و راہنما ہیں اور معاشرے میں احکام کے اجراء کرنےاور اسلام کے اجتماعی نظام کو برقرار کرنے اور چلانے پر مامور ہیں۔ 

 

  حکومت احکام اوّلیہ میں سے ہے اورفرعی احکام پر مقدم ہے

اگر حکومت کے اختیارات فرعی احکام کے دائرے میں ہوں تو نبی اکرم (ص) کو پیش کی جانی والی حکومت الہیہ اور ولایت مطلقہ بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ لہذا حکومت جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ولایت مطلقہ کا ایک شعبہ ہے اسلام کے احکام اوّلیہ میں سے ہے اور وہ تمام فرعی احکام حتی نماز ، روزہ اور حج پر بھی مقدم ہے۔

 حاکم ایسی مسجد یا گھر کو منہدم کرنے کا حکم دے سکتا ہے جو سڑک کے راستے میں واقع ہے اور گھر کی قیمت صاحب گھر کو واپس کرسکتا ہے حاکم ضرورت کے موقع پر مسجد کو بند کرسکتا ہے ایسی مسجد کو خراب کرسکتا ہے جو ضرر و نقصان کا سبب ہو حکومت ایسی شرعی قرار دادوں کو یک طرفہ طور پر باطل کرسکتی ہے جو عوام سے طے کی ہیں اور جو ملک کے مصالح اور اسلام کے خلاف ہوں اور ہر اس امر پر پابندی عائد کرسکتی ہے جو مصالح اسلام کے خلاف ہو چاہیے وہ امر عبادتی یا غیر عبادتی ہو حکومت حج جیسی اہم عبادت پر جانے سے روک سکتی ہے اگر وہ اسلامی ملک کے مصالح کے خلاف ہو۔ (صحیفہ نورجلدج20 ص 170)

 

کتاب: صحیفہ نور، جلد، ۳،۱۱،۲۰، امام خمینی سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے