انسانی فہم اور شناخت شہید مطہری کی نگاہ میں

انسان کی تمام معلومات کسبی ہیں

انسان کے بارے میں مجہولات میں سے ایک یہی انسان کی فطرت کا مسئلہ ہے جس کے دو حصے ہیں ایک شناخت فہم اور دریافت سے متعلق ہے اور دوسرا خواہش اور رغبت سے متعلق ہے۔ شناخت اور دریافت کے حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ انسان بعض فطری یعنی غیر کسبی معلومات رکھتا ہے یا نہیں؟ اس وقت ہمارے ذہن میں ہزاروں تصورات اور مصداق موجود ہیں کہ جن کے بارے میں شک نہیں کہ تقریباً تمام کسبی ہیں۔

قرآن مجید کی سورئہ مبارکہ نحل کی ایک آیت یوں ہے: و اللہ اخر جکم من بطون امہاتکم لاتعلمون شیئا و جعل لکم السمع و الابصار والافئدة لعلکم تشکرون(نحل ۷۸) ”اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں سے اس عالم میں پیدا کیا ہے کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور تمہیں قوت سماعت بصارت اور دل عطا کیا تاکہ تم شکرگزار ہو جاؤ۔“

بعض نے اس آیت سے یہ معنی اخذ کرنا چاہا ہے کہ انسان کی تمام معلومات کسبی ہیں اور کوئی معلومات فطری نہیں ہیں۔ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں سے نکالا تو تم کچھ نہیں جانتے تھے یعنی تمہاری لوحِ دل پاک اور صاف تھی اور اس پر کوئی نقش موجود نہ تھا تمہیں کان اور آنکھیں دیں اور یقینا ان دو کا ذکر جو اس میں سے نمونے کے طور پر ہے نیز فرمایا اور تمہیں دل عطا کیا کہ جس سے مراد فکری صلاحیت ہے یعنی تمہاری لوحِ دل پر کچھ نہ لکھا تھا۔ یہ تو حواس کا قلم ہے کہ جو دل اور عقل کے ہاتھوں سے اس صاف و پاک لوح پر کیا کیا لکھتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے۔

انسانی فہم کے بارے افلاطون کا نظریہ

ایک اور نظریہ ہے کہ جو افلاطون کا ہے جو اس نظریے کے برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ ہر چیز جانتا ہوتا ہے کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو نہ جانتا ہو انسان کی روح بدن میں آنے سے پہلے ایک اور دنیا میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے بقول وہ دنیا ”دنیائے مثل“ یا ”عالم مثال“ ہے ”مثل“ کا مفہوم اس کے نزدیک اس عالم کے موجودات کے حقائق سے عبارت ہے۔ روح انسانی نے اس دنیا میں ”مثل“ کو جانا ہے اور حقائق اشیاء تک پہنچ چکے ہیں جب اس روح کا تعلق بدن سے قائم ہوتا ہے تو اس کے اور اس کی معلومات کے درمیان ایک طرح کا حجاب حائل ہو جاتا ہے اور وہ ایک ایسے شخص کی طرح ہو جاتی ہے کہ جو کوئی چیز جانتا ہوتا ہے لیکن وقتی طور پر اسے بھول جاتا ہے۔

اس کے نظریے کے مطابق جو کوئی بھی اس دنیا میں آتا ہے تمام علوم مثلاً ریاضی وغیرہ جانتا ہوتا ہے پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تعلیم و تعلم کیا ہے؟ اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ تعلیم و تعلم یاد آوری اور یاد دلانے کے لئے ہوتا ہے۔ معلم یاد دلانے والا ہے معلم اس چیز کو یاد دلانے والا ہے جو متعلم اپنے باطن میں جانتا ہوتا ہے۔ یہ اسے اس چیز کی طرف متوجہ کرتا ہے اسے وہ چیز یاد دلاتا ہے کہ جسے وہ پہلے سے جانتا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے مکتب میں تعلیم فقط ایک طرح کی یاددہانی ہے اور بس یہ نظریہ پہلے نظریے کے بالکل مدمقابل ہے۔

کتاب: فطرت،شہید مرتضی مطہری؛ سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے