انسان اور قضا و قدر، شہید مطہری کی نگاہ میں

قضا و قدر سے مراد

”قضا“ واقعات اور حادثات کے بارے میں خدا کے اٹل حکم کا نام ہے اور ”قدر“ ان کی مقدار کے اندازے کا نام۔”قضا و قدر“ ایک قطعی اور مسلم امر ہے لیکن آزادی انسان کو محدود کرنے کا سبب نہیں۔ بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی آزادی میں حد بندی کا اصل سبب قضا و قدر ہے۔ لیکن ہم نے اس کے برعکس اس معاملے میں قضا و قدر کا نام نہیں لیا کیوں؟ کیا اس لئے کہ ”قضا و قدر“ موجود نہیں؟ یا یہ کہ وہ انسانی آزادی کی حد بندی کا سبب نہیں؟


 

قضا و قدر کی تعریف

 ”قضا“ واقعات اور حادثات کے بارے میں خدا کے اٹل حکم کا نام ہے اور ”قدر“ ان کی مقدار کے اندازے کا نام۔”قضا و قدر“ ایک قطعی اور مسلم امر ہے لیکن آزادی انسان کو محدود کرنے کا سبب نہیں۔ 

 

 

 قضا و قدر اور نظام اسباب و مسببات

الٰہی علوم کے نقطہ نظر سے یہ امر مسلم ہے کہ قضائے الٰہی کسی بھی حادثے سے براہ راست یا بلاوسطہ کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ وہ ہر حادثے کا وقوع اس کے اپنے اسباب اور علل کی بناء پر قرار دیتی ہے قضائے الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ عالم کا نظام ”اسباب اور مسببات“ کا نظام ہو۔ انسان جتنی آزادی ”عقل اور ارادہ“ کی مدد سے حاصل کرتا ہے اور اس آزادی کی جو حد بندی اس پر وراثت ماحول اور تاریخ کی وجہ سے عائد ہوتی ہے وہ محض قضائے الٰہی اور دنیا کے اسباب و مسببات کے مذکورہ نظام کی وجہ سے ہے۔

 


  قضا و قدر اور واقعات کا تعلق

الٰہی علوم کے نقطہ نظر سے یہ امر مسلم ہے کہ قضائے الٰہی کسی بھی حادثے سے براہ راست یا بلاوسطہ کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ وہ ہر حادثے کا وقوع اس کے اپنے اسباب اور علل کی بناء پر قرار دیتی ہے قضائے الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ عالم کا نظام ”اسباب اور مسببات“ کا نظام ہو۔

 

 

 قضا و قدر اور انسان کی آزادی

اس لئے خود قضائے الٰہی آزادی انسان کی محدودیت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ یہ وہی حدود و قیود ہیں جو انسان پر ورثے ماحول اور تاریخ کی جانب سے عائد ہوتی ہیں نہ کوئی اور اسی طرح وہ آزادی جو انسان کو نصیب ہوتی ہے وہ بھی قضائے الٰہی سے اسے ملتی ہے وہ یوں کہ قضائے الٰہی ہی کا تقاضا ہے کہ انسان عقل اور ارادے کا مالک ہو اور طبیعی اور اجتماعی حالات کے محدود دائرے میں رہتے ہوئے بھی وسیع پیمانے پر ان حالات کی قید سے آزادی حاصل کر لے اور اپنی قسمت اور مستقبل کی تعمیر کا کام اپنے ہاتھ میں لے۔

 

 

قضائے الہی کے تقاضے

قضائے الٰہی ہی کا تقاضا ہے کہ انسان عقل اور ارادے کا مالک ہو اور طبیعی اور اجتماعی حالات کے محدود دائرے میں رہتے ہوئے بھی وسیع پیمانے پر ان حالات کی قید سے آزادی حاصل کر لے اور اپنی قسمت اور مستقبل کی تعمیر کا کام اپنے ہاتھ میں لے۔

 

 

 کتاب:انسان قرآن کی نظرمیں، شھید مرتضی مطہری سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے