ایمان اور نفاق! از شھید مطہری

منافقت سے بھی زیادہ مہلک بیماری!

کچھہ منافقتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان خود بھی نہیں جانتا کہ وہ منافقت میں مبتلا ہے۔ ایک انسان در حقیقت منافق ہوتا ہے اور خود کو مومن سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل کی گہرائیوں میں شکوک و شبہات، بے ایمانی، کفر اور جھوٹ موجود ہوتا ہے لیکن وہ خود کو مومن سمجھ رہا ہوتا ہے۔

 

قرآن میں منافقوں کے خصائل!

قرآن مجید میں ارشاد ہورہا ہے "وَ لایأْتونَ الصَّلوةَ الّا وَ هُمْ کسالی‏ وَ لا ینْفِقونَ الّا وَ هُمْ کارِهون”(سورہ توبہ 54)یعنی یہ کہ منافق وہ ہیں کہ جن میں یہ دو صفتیں پائی جاتی ہیں1۔ نماز نہیں پڑھتے مگر سستی اور کاہلی کے ساتھ 2۔ اپنے مال میں سے انفاق نہیں کرتے مگر کراہت و مجبوری کے ساتھہ۔

 

نام نہاد ایمان کا کیا مطلب ہے؟

وہ دو ستون کہ جنکا قرآن ہمیشہ ذکر کرتا ہے: "وَ اقیمُوا الصَّلوةَ وَ اتُوا الزَّکوةَ”۔یعنی ان کی عبادت صرف نام نہاد جسمانی اور مالی عبادت ہے۔ اگر ان(منافقوں)کا اللہ پہ ایمان ہوتا تو ان سے پوچھئے کہ وہ اتنی ہچکچاہٹ کےساتھ نماز نہیں پڑھتے!اور نہ ہی اتنی ہچکچاہٹ و مجبوری کے ساتھ اللہ کی راہ میں انفاق نہیں کرتے۔

 

ایمان کی شرائط!

اللہ رب العالمین، رحمٰن و رحیم، ملک یوم الدین پر ایمان لانے کی شرط یہ ہے کہ انسان خشوع و خضوع سے نماز قائم کرے، ایمان کی دوسری شرط یہ ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ سب خدا کی طرف سے ہے اور خدا جس چیز کو انفاق کرنے کا کہے اس خوشی سے اس کی راہ میں دے دے۔

شہید مطہری ، عہد بندگی

 

 

کتاب: استاد مطہری، آشنائی با قرآن، ج۳، ص۲۳۵

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے