تقویٰ ہمارا محافظ، ہم تقویٰ کے محافظ! از شہید مطہری رح

تقویٰ کو ہمیشہ خطرہ لاحق ہے!

حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ خواہ کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو اس میں پھر خطرات موجود رہتے ہیں۔ انسان کو تقویٰ کی حفاظت میں رہنا چاہیے، اور ساتھ میں اسے تقویٰ کا بھی محافظ ہونا چاہیے۔

اور یہ کوئی منطقی اصطلاح میں "دور” کا مصداق نہیں۔

 

 

 

 

 

تقویٰ، لباس کی مانند!

’’اس میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ کوئی چیز ہمارے تحفظ کا ذریعہ ہے اور ساتھ ہی ہم اس کو محفوظ کرنے کے پابند بھی ہیں۔ جس طرح لباس کی مثال میں نے دی ہے: لباس انسان کا سردی اور گرمی سے محافظ اور سپر ہے، اسی طرح انسان بھی اپنے لباس کا چوری ہونے سے محافظ اور نگہبان ہے۔ امیر المومنین (ص) نے ایک ہی جملے میں دونوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: الا فَصونوها وَ تَصَوَّنوا بِها.. یعنی تقویٰ کو قائم رکھو اور اس کے ذریعے اپنی حفاظت بھی کرو۔

 

 

 

 

انسان اور تقویٰ، دونوں ایک دوسرے کے محافظ!

”پس اگر ہم سے پوچھا جائے کہ تقویٰ ہماری حفاظت کرتا ہے یا ہمیں تقویٰ کی حفاظت کرنی چاہیے تو ہم جواب دیتے ہیں کہ دونوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی پوچھے کہ کیا تقویٰ سے خدا اور قرب الٰہی کے مقام تک پہنچنے میں مدد لی جائے یا خدا سے تقویٰ کو حاصل کرنے میں مدد مانگی جائے؟ ہم کہتے ہیں دونوں؛ تقویٰ کی مدد سے ہمیں خدا کا قرب حاصل کرنا چاہئے اور خدا سے مدد مانگنی چاہئے کہ وہ ہمیں تقویٰ کے حصول میں مزید کامیاب بنائے۔

 

 

 

 

استاد شہید مرتضیٰ مطہری رح، دہ گفتار، ص 34

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے