سالک راہ آخرت کے لئے کامیابی کا درست طریقہ از امام خمینی

اپنے معارف و مناسک کو شیطان اور نفس امّارہ سے بچائے

سالک راہ آخرت کے لئے حتماً لازم ہے کہ جتنی کاوش ممکن ہو اپنے معارف و مناسک کو شیطان اور نفس امّارہ سے بچانے میں صرف کرے اور پوری دقت نظر اور جذبہ تجسس کے ساتھ اپنے حرکات و سکنات اور طلب ومطلوب کے بارے میں غور کرے اور باطنی حرکات اور روحانی غذا کی مبادیات کو حاصل کرے اور نفس اور شیطان کی فریب کاریوں سے غافل نہ ہو اور خود کو ہرگز خودسر اور آزاد نہ ہونے دے، کیونکہ اکثر ذرا سی غفلت اور ڈھیل انسان کو مغلوب کر دیتی ہے اور پلاکت و فنا کی طرف لے جاتی ہے۔

 

روحانی غذاوں کو شیطانی تصرفات سے محفوظ رکھے

روحانی غذائیں اگر شیطانی تصرفات سے محفوظ نہ ہوں اور شیطانی ہاتھ ان کے فراہم کرنے میں دخیل ہو تو علاوہ اس کے کہ روح و قلب کو ان سے بالیدگی حاصل نہیں ہوتی اور اپنے کمال تک نہیں پہنچتے، ایک نہایت ہی برا اور نقصان پیدا ہوجاتا ہے اور ممکن ہے ایسی غذائیں استعمال کرنے سے انسان خود بھی شیطان بن جائے یا چوپایوں اور درندوں کے زمرے میں خود کو شامل کر لے۔

چنانچہ بعض ’’ اصطلاحی اہل عرفان‘‘ میں ہم نے ایسے لوگ دیکھیں ہیں جن کو عرفانی اصطلاحات اور انے بارے میں غور و فکر نے ہی بے راہ اور گمراہ کر دیا، ان کے دلوں کو پست اور باطن کو تاریک کردیا اور معارف کی پابندی ہی نے ان کی انانیت کی قوت کو بڑھاوا دیا اور وہ ناشائستہ دعوے اور شرع کے مقابلے میں گستاخیاں کرنے لگے۔

ارباب ریاضت و اصحاب سلوک میں بھی ایسے افراد ہیں جن کی تصفیہ قلب میں مشغولیت و ریاضیت نے ان کے دلوں میں اور زیادہ خس و خاشاک بھر دئے اور ان کے باطن کو اور بھی تاریک بنا دیا۔ ایسا اس لئے ہوا کہ انہوں نے سلوک معنوی اور مہاجرت الی اللہ کا خیال نہیں رکھا۔ ان کے سلوک اور ریاضتیں، شیطان اور نفس کے تصرفات کی وجہ سے اللہ کے لئے نہیں رہ گئی تھیں بلکہ شیطان اور نفس کے لئے تھیں۔

علوم عقلیہ کے طلبہ کی طرح علوم نقلیہ شرعیہ کے طلبہ میں بھی ہم نے ایسے لوگ دیکھے جن پر علم نے برا اثر ڈالا، ان میں اخلاقی مفاسد کا اضافہ کیا اور علم جو ان کی فلاح و نجاح کا باعث ہونا چاہئے تھا، ہلاکت کا سبب بن گیا اور انہیں جہالت، سرکشی و غرور اور خودپسندی کی طرف کھینچ لے گیا۔

اہل عبادت اور اہل مناسک اور آداب وسنن کی پابندی کرنے والوں میں بھی ایسے اشخاص ہیں جن کے دلوں کو عبادات و مناسک آلودہ اور تاریک کر دیتی ہیں اور ان لوگوں کو خودپسندی، تکبر، خود نمائی، فیشن پرستی، بد اخلاقی اور بندگان خدا سے بدگمانی میں مبتلا کر دیتی ہے حالانکہ ان عبادات و مناسک سے احوال و نفوس کی اصلاح ہونا چاہئے۔

یہ برائیاں بھی ان الٰہی معجونوں کو پابندی سے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، یقیناً جو معجون شیطان خبیث کے ہاتھ لگ جائے اور نفس سرکش کے تصرف میں آجائے اس سے سوائے شیطانی بد اخلاقیوں کے اور کچھ بھی پیدا نہیں ہوگا۔

اور جب دل ہر حال میں انہیں سے غذا حاصل کرتا رہے گا اور وہی نفس کی باطنی صورت بن جائیں گے اور اسی کی مداومت کے بعد انسان (آدم کی اولاد ہونے کے بجائے) فرزند شیطان ہوجائے گا کیونکہ اسی کے ہاتھ کے نیچے تربیت پائے اور اسی کے تصرفات کے تحت اسکی نشو ونما ہوگی اور جب چشم مُلکی بند ہوگی اور چشم ملکوتی کھلے گی تو اپنے آپ کومنجملہ اور شیطانوں کے ایک شیطان پائے گا اور اس وقت نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا اور اپنے حال پر حست و افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

تنہائیوں میں استغفار اور تضرع و زاری سے غافل نہ رہے

لہذا طریق آخرت پر چلنے والا ہر دینی رشتہ میں منسلک اور ہر الٰہی طریق کا راہی ہے، ایک تو اس کو چاہئے کہ ایک ہمدرد طبیب اور مہربان تیمادار کی طرح پوری توجہ اور پابندی کے ساتھ اپنے حال کی نگہداری کرے اور اپنی سیر و سلوک کے عیوب اور کوتاہیوں کی گہرائی اور باریکی سے تفتیش کرے۔ دوسرے اس طرح سیر و سلوک کے درمیان تنہائیوں میں حق تعالی کی ذات پاک سے پناہ مانگنے، استغفار اور درگاہ ذوالجلالمیں تضرع و زاری سے غافل نہ رہے۔

 

کتاب: آدابِ نماز از امام خمینیؒ، ص ۴۵ الی ۴۸؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے