شادی کی سادہ تقریبات، معاشرے کی بقاء کیلئے اہم مسئلہ! از رہبر انقلاب
عورت، قرآن کی نگاہ میں از شہید مطہری
شہید مطہری فرماتے ہیں: اسلام نے عورت کے پائمال شدہ حقوق کا احیا کیا ہے۔ قرآن نے اپنے نزول کے آغاز میں ہی عورت کے حقوق کے لیے بنیادی قدم اٹھایا۔ ذیل میں عورت سے متعلق قرآنی تصور کے چیدہ نکات بیان کیے جاتے ہیں۔
عورت خلقت میں مرد سے مختلف نہیں ہے۔
قرآن کریم دیگر آسمانی منابع (مذاہب) کے برخلاف مرد اور عورت کی خلقت کو یکساں قرار دیتے ہوئے عورت کی خلقت کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآن پوری صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی جنس سے خلق ہوئے ہیں۔(خلقکم من نفس واحدة ثمّ جَعَلَ منہا زَوجہا – زمر ۶) یعنی مرد اور عورت کی تخلیق (نفس واحدہ) مٹی سے ہوئی ہے۔ جبکہ موجودہ تورات، عورت کو مرد کی نسبت ایک پست تر مادہ سے خلق شدہ مخلوق کے طور پر بیان کرتی ہے۔تورات کی نگاہ میں عورت کو مرد کی باہنی پسلی سے خلق کیا گیا ہے، لیکن قرآن کریم عورت اور مرد کی خلقت میں اس طرح کے امتیاز کا قائل نہیں۔
روحانی کمالات تک رسائی
دور جاہلیت کی ثقافت اور تحریف شدہ ادیان نے عورت کو روحانی اعتبار سے ضعیف قرار دے کر معنوی کمالات اور قرب الهی کے حصول سے عاجز خیال کیا ہے۔ جبکہ قرآن کریم کی نگاہ میں معنوی کمالات کا حصول مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں طور پر ممکن ہے اور جنسیت(عورت یا مرد ہونے) کو دخالت حاصل نہیں ہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں قرب الہی اور پاداش اخروی کا تعلق جنسیت (مرد یا عورت ہونے) کی بجائے انسان کے ایمان اور عمل سے مربوط بتایا گیا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ قرآن نے عظیم مردوں کے ساتھ صاحب عظمت خواتین کو ذکر کر کے ان کے معنوی مقام کی تعریف کی ہے۔ حضرت مریم،سارہ، حاجرہ اور زوجہ فرعون کی عظمت بیان کی گئی ہے۔
عورت کا وجود مرد کے لیے باعث تسکین ہے قرآن نے عورت کو سکون اور اطمینان(مہر و محبت) کا محور بتا کر معاشرتی زندگی میں عورت کے کردار کی اہمیت اور عظمت کو واضح کیا ہے۔ (ومن آیاتہ أن خلق لکم من أنفسکم ازواجاً لتسکنوا الیہا) روم / 21
ترجمہ و اقتباس از مقالات شہید مطہری (حقوق زن در اسلام (2) بخش اول و دوم)۶