نوجوانوں کا دینی رجحان رہبر معظم کی نظر میں

دین اور جوان

آج کا نوجوان طبقہ اس طرف مائل ہے کہ مذہبی مفاہیم اور مسائل کو بیان اور واضح کیا جائے۔ یہ طبقہ دین کو استدلال، منطق، معرفت اور وسعت نطری کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے، ایک مناسب اور صحیح مطالبہ ہے، ایسا مطالبہ کہ جسے خود دین نے ہم کو سکھایا ہے۔ قرآن کریم ہم سے یہی تو فرماتا ہے تفکر، تعمق اور فہم و ادراک کے ساتھ معارف اسلامی کو سمجھیں اور قبول کریں۔

وہ افراد جو (حکومتی) عہدہ دار ہیں اگر اس وسعت نطری کو اس طبقے میں رائج کریں تو ملاحظہ کریں گے کہ یہ نسل مکمل طور پر باعمل اور دیندار ہے۔

روح معنویت سے سرشار نوجوان

یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ عام طور پر نوجوانوں میں ایک روح مذہبی و عرفانی پائی جاتی ہے۔ نوجوان یہ چاہتے ہیں کہ خدا اور حقیقت سے قریب ہوں، یہی وجہ ہے کہ مذہبی تقاریب میں ان کی شرکت کثیر تعداد میں ہوتی ہے۔جہاں کہیں بھی مذہب ترو تازہ اور پر رونق نظر آتا ہے نوجوان طبقہ وہاں پہنچ جاتا ہے۔

چنانچہ اسی بنیاد پر جہاں جہاں مذہب فرسودہ اور بے روح ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان طبقہ دین سے دور اور بے اعتنا ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے، یہ فقط دور حاضر کا خاصہ نہیں ہے۔ مذہب اگر زندہ و تروتازہ ہے تو نوجوان سے قریب ہے اور اگر بے جان و فرسودہ ہے تو نوجوان طبقہ اس سے بیزار ہے۔

انسان کا مقابلہ شیطان سے اس وقت ہوتا ہے جب شیطان اس کو عبادات سے منحرف کرنا چاہتا ہے۔

بہترین عبادت گزار وہ افراد ہیں جو نوجوان ہیں

عبادت دل کو صاف و شفاف اور روح کو پاک کرتی ہے۔جو افراد سربسجود نہیں ہو سکتے وہ معنیویت کی لذت بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ خدا سے محبت، خدا سے راز و نیاز، خدا جو کہ غنی مطلق ہے اس سے استدعا کرنا، یہ سب کچھ عبادت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بہترین عبادت گزار وہ افراد ہیں جو نوجوان ہیں، ایک نوجوان کی عبادت، معنویات سے پُر، با خضوع و خشوع اور اس کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔

 

 

کتاب: رہبر معظم کی نوجوانوں سے گفتگو، ص ۱ الی ۶؛ سے اقتباس

 

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے