نوجوانوں کے خلاف سامراجی پلان،شہید عارف الحسینی

عالمی استعمار کی مسلم نوجوانوں کے خلاف فکری اور ثقافتی یلغار نے مسلم قیادتوں کو سنجیدہ غورو خوض پر مجبور کردیا ہے۔ اس سلسلے میں قائد شہید علاّمہ عارف حسین الحسینی فرماتے ہیں:  سامراج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے تعلیم یافتہ جوانوں کی برین واشنگ میں مصروف ہے اور زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے ہمارے جوانوں کو اسلامی تعلیمات اور اسلامی اخلاقیات سے دور کر کے انہیں فاسد تہذیب کی طرف دھکیل رہا ہے تا کہ قوت ایمان سے انہیں تہی دامن کر دیا جائے۔

یونیورسٹیز اور جامعات میں نفوز

 راولپنڈی میں ایک جگہ ہمارے رفقا بیٹھے تھے، اسلامی یونیورسٹی کے کچھ طلبا وہاں آئے۔ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ اسلامی یو نیورسٹی کے جو اساتذہ ہیں چاہے وہ پاکستانی ہیں یا عرب، ان کو جوتنخواہ ملتی ہے وہ مصر دیتا ہے۔ ان طلبہ نے یہ بتایا کہ جب دو تین سال پہلے ہمارے صدر صاحب نے حسنی مبارک اور امریکہ کی خدمت کی اور مصر کو اسلامی سربراہی کانفرنس میں واپس لے آیا اور جب اسلامی یونیورسٹی کے بجٹ کے سلسلے میں سعودیہ نے کچھ پس و پیش کیا کہ ہم ایسا نہیں دے سکتے تو مصر نے پاکستان کو یہ پیش کش کی کہ چونکہ آپ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے اور آپ نے ہماری خدمت کی ہے لہذا ہم اسلامی یونیورسٹی کے جتنے بھی اساتذہ ہیں ان کی تنخواہ دیں گے۔

 

 جوان اور سامراجی پلان

سامراج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے تعلیم یافتہ جوانوں کی برین واشنگ میں مصروف ہے اور زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے ہمارے جوانوں کو اسلامی تعلیمات اور اسلامی اخلاقیات سے دور کر کے انہیں فاسد تہذیب کی طرف دھکیل رہا ہے تا کہ قوت ایمان سے انہیں تہی دامن کر دیا جائے۔

 

 

دیکھیں یہ کیسی اسلامی یونیورسٹی ہے؟۔ اس اسلامی یونیورسٹی کے جو طلبہ اس دن میرے پاس آئے تھے ان میں سے ایک طالب علم کا تعلق بلوچستان سے تھا کچھ اور طلبا بھی تھے ۔ اس بلوچستان کے طالب علم کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اور بھی کچھ طلبہ کو نکالا گیا تھا۔ کس وجہ سے انہیں نکالا گیا؟ صرف اس لیے کہ وہ امریکہ کی مخالفت کرتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ جس طریقے سے اس یونیورسٹی میں اسلامی تحریکوں اور اسلامی موومنٹس پر جب لیکچر ہوتے ہیں مثلا اخوان  المسلمین  ہو یا جماعت اسلامی ہو ان کے بارے میں لیکچر دیا جاتا ہے۔اسی طرح آج سب سے بڑی موومنٹ اور سب سے بڑا اسلامی انقلاب ایران میں برپا ہوا ہے، لہذا ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی میں ایک کرسی انقلاب کے لئے مختص کی جائے ۔

فرقہ وارانہ طرزِ عمل

لیکن یہ لوگ تفرقہ ڈالتے ہیں کہ یہ سنی ہے۔ یہ شیعہ ہے، یہ دیو بندی ہے، یہ بریلوی ہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ جس اسلامی یونیورسٹی میں بچوں کو یہ پڑھایا جا تا ہے کہ یہ دیو بندی ہے اور یہ بریلوی ہے اس سے شیعہ کو نکال دو، فلاں سوچ رکھنے والوں کو نکال دو تو ایسے لڑکے اگر کل اسلام کے نام پر معاشرے میں داخل ہو جائیں تو کیا پھر على الإسلام السلام نہیں ہو جائے گا۔ پھر اسلام کا فاتحہ پڑھ لینی چاہئے ۔

 

کتاب اسلوب سیاست (ص23 ۔40) سے اقتباس

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے