سقوطِ سلطنتِ عثمانیہ، فلسطین پہ قبضے کا زمینہ ساز از شہید مطہری

یہودی اکابروں کا ایک تاریخی فیصلہ!

مسئلہ فلسطین پہ لازمی نہیں کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے گفتگو کی جائے، ہم فی الحال انسانی نقطہ نظر سے اس پہ روشنی ڈالتے ہیں، دنیا بھر کے یہودی جب مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں سے اذیت و تکلیفیں اٹھاتے ہیں۔ مثلا روس میں اذیتیں اٹھاتے ہیں، جرمنی میں اذیتیں اٹھاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے بزرگ بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک ہم دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں، ہم ہر جگہ اقلیت میں ہیں، ایسے ہماری قسمت نہیں بدلے گی، ہمیں ایک مرکز کا انتخاب کرنا چاہیئے اور ہم سب کو اسی جگہ پہ جمع ہونا چاہیئے۔ یہودی مذہب کے ماننے والوں کو وہاں جمع ہونا چاہیئے۔ شروع میں وہ فلسطین کے بجائے دوسری جگہوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔

 

سلطنت عثمانیہ کے زوال کی وجہ، بصیرت کا فقدان!

یہودیوں کے اس اقدام کے بعد کہ وہ آپس میں ایک مستقل ریاست کے بارے میں سوچتے ہیں، پہلی جنگ عظیم ہوجاتی ہے(البتہ میں خلاصتاً عرض کرتا ہوں، اس موضوع پہ لکھی گئی کتابیں پڑھ سکتے ہیں)۔ جب اتحادی فوج عثمانیوں سے جنگ کرتی ہیں۔ البتہ میں عثمانی حکومت کا دفاع نہیں کرنا چاہتا، ان کی ایک خاصیت یہ تھی یہ ایک متحد حکومت تھی؛ خواہ وہ ظالمانہ ہی کیوں نہ ہو، بالاخر متحد تھی۔ عثمانی حکومت سے تنگ آچکے سادہ لوح عربوں نے اشتعال برطانیہ سے سمجھوتا کرلیا اور عثمانیوں کے مقابلے میں انہیں مستقل حکومت دئے جانے کے وعدے پہ داخلی جنگ برپاء کردی۔

 

خبیث برطانیہ، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا اصلی ذمہ دار!

عثمانی خلافت میں برطانیہ نے عربوں سے قطعی وعدہ کیا کہ ہم تمہیں اس شرط پہ آزادی و استقلال دلوائیں گے کہ تم ہماری حمایت میں عثمانیوں سے لڑو۔ جس وقت یہ نادان، بےخبر افراد اپنی ہی کچھہ حدّ تک اسلامی حکومت سے لڑ رہے تھے، انگریزوں نے نئی بنی ہوئی صیہونی پارٹی سے کئے وعدے کو پورا کردیا کہ تمہیں اسلامی ممالک کے دل میں فلسطین دیں گے۔

انصاف کے ٹھیکے داروں کی بے انصافی!

برطانیہ کی جانب سے صہیونیوں کو دیے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کے بعد، یونائٹڈ نیشنز بنائی گئی(ذرا انصاف دیکھیں!)اور اس بات کی منظوری دی گئی کہ دنیا میں ایسی قومیں بلخصوص وہ جو سلطنت عثمانیہ سے الگ ہوئی ہیں، کیونکہ وہ ترقی نہیں کررہی، لہذا ہمیں انہیں چلانے کے لئے ان پر سرپرست مقرر کرنا چاہیئے۔ حقیقت میں وہ عثمانیوں کی وراثت کو تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے ایک حصّہ فرانس، ایک برطانیہ کو دیا گیا۔ برطانیہ نے جو جگہیں لیں ان میں فلسطین بھی تھا۔ اس نے کہا میں تمہار سرپرست ہوں اور قانونی طور پہ ان کا کئیر ٹیکر بن گیا۔ پھر صہیونیوں سے وعدہ کیا(مشہور بالفور وعدہ)کہ یہ جگہ تمہارے حوالے کرتا ہوں۔

 

 

عہد بصیرت ، شہید مطہری

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے