تقیہ از شہید مطہری

ایک سوال،دو جواب!

تقیہ فقط دشمنوں سے نہیں، جاہل اور نادان دوستوں سے بھی تقیہ ضروری ہے-حوزہ علمیہ قم میں اپنے قیام کے دوران جب مجھے مرحوم آیت اللہ بروجردی رحمت اللہ علیہ کے درس میں شرکت کا شرف حاصل ہوا تو ایک دن فقہ کے درس میں ایک حدیث سامنے آئی کہ جسکا مضمون یہ تھا کہ ایک شخص نے امام صادق(ع) کےجواب پہ آپ سے دوبارہ سوال پوچھا کہ یہی سوال آپکے والد امام باقر(ع)سے کیا تھا لیکن انہوں نے کسی اور طریقے سے جواب دیا تھا،دونوں میں سے کونسا جواب صحیح ہے؟

 

 

 

تقیہ کیوں؟

امام صادق(ع) نے جواب دیا کہ میرے والد نے جو کہا وہ ٹھیک ہے-اسکے بعد مزید کہا کہ جب شیعہ میرے والد کے پاس آتے تو خلوص نیت سے آتے تھے اور انکا ارادہ حقیقت کو پہچاننا ہوتا تھا تاکہ جاکر عمل کریں،لہذا وہ بھی انہیں عین حقیقت سے آگاہ کرتے تھے-لیکن جو لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں وہ عمل وہدایت کا ارادہ نہیں رکھتے-وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مجھ سے کیا سنتے ہیں اور انکے لئے کافی ہے کہ جو کچھ سنیں اسے آگے بتائیں اور فتنہ برپا کریں-لہذا تقیہ سے جواب دینے پہ مجبور ہوں

 

 

تقیہ اور درد دل!

کیونکہ مذکورہ بالا حدیث شیعوں سے تقیہ کرنے کے متعلق ہے نہ کہ شیعوں کے مخالفوں کے لئے،اس لئے مرحوم آیت اللہ بروجردی کو اپنا درد دل کے اظہار کا موقع ملا اور انہوں نے فرمایا:”یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اپنوں سے تقیہ زیادہ اہم ہے-میں مرجعیت عامہ کے شروع میں گمان کرتا تھا کہ میرا کام فتوا دینا اور لوگوں کا کام عمل کرنا ہے،جو بھی فتوا دوں گا لوگ اس پہ عمل کریں گے-لیکن بعض فتوں کے بعد(جو عوام الناس کے ذوق کے خلاف تھے) مجھے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے"-

 

 

 

 

عہد معارف ، شہید مطہری

متعلقہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے